Lafz e Allah

اللہ 
سریانی ذبان جو آسمانوں پر بولی جاتی ہے ۔فرشتوں اور رب اسی ذبان میں مخاطب ہوتے ہیں۔جنت میں آدم صفی اللہ بھی یہی ذبان بولتے تھے۔پھر حضرت آدم صفی اللہ اور مائی حوا دنیامیں آئے،عربستان میں آکر آباد ہوئے ۔اُن کی اولا دبھی یہی ذبان بولتی تھی ۔پھر آل کے دنیا میں پھیلاوکی وجہ سے یہ ذبان عربی ،فارسی،لاطینی،سے نکلتی ہوئی انگریزی تک جا پہنچی،اور اللہ مختلف ذبانوں میں علیحدہ علیحدہ پکارا جانے لگا ۔آدم علیہ اسلام کے عرب میں رہنے کی وجہ سے سریانی کے بہت سے الفاظ اب بھی عربی میں موجود ہیں ۔جیسا کہ آدم کو آدم صفی اللہ کے نام سے پکارا تھا ۔نوح نبی اللہ ،ابراہیم خلیل اللہ،پھر موسی کلیم اللہ ،عیسی روح اللہ اورشافع روز محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محمد الرسول اللہ ﷺ کے نام سے پکارا گیا۔یہ سب کلمے سریانی ذبان میں لوح محفوظ پر ان انبیاء کے آنے سے پہلے درج تھے ،تبھی حضورپاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی نبی تھا ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ ’’اللہ‘‘ مسلمانوں کا رکھا ہوا ہے۔مگر ایسا نہی ہے

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کا نام عبداللہ تھا۔جبکہ اس وقت اسلام نہی تھا ۔اور اسلام سے پہلے بھی پر نبی کے کلمے کیساتھ اللہ پکارا گیا ۔جب روحیں بنائی گئیں تو ان کی ذبان پر پہلا لفظ ’’اللہ‘‘ ہی تھا ۔اور پھر روح آدم علیہ اسلام کے جسم میں داخل ہوئی تو یا اللہ پڑہ کر داخل ہوئی تھی ۔بہت سے مذاہب اس رمز کو حق سمجھ کر اللہ کے نام کا ذکر کرتے ہیں ۔بہت سے شکوک و شہبات کی وجہ سے اس سے محروم ہیں۔

جو بھی نام رب کی طرف اشارہ کرتا ہے قابل تعظیم ہے
یعنی اللہ طرف رُخ کر دیتا ہے ۔مگر ناموں کے اثر سے متفرق ہوگئیے ۔حروف ابجد اور حروف یہجی کی رو سے ہر لفظ کا ہندسہ علیحدہ ہوتاہے ،یہ بھی آسمانی علم ہے۔اور اِن ہندسوں کا تعلق کل مخلوق سے ہے۔۔بعض دفعہ یہ ہندسے ستاروں کے حساب سے موافقت نہی رکھتے۔جس کہ وجہ سے انسان پریشان رہتاہے ۔بہت سے لوگ اس علم کے ماہرین ستاروں کے حساب سے ذائیچہ بنوا کر نام رکھتے ہیں۔جیسا کہ ابجد (ا،ب،ج،د)(۱،۲،۳،۴) ک ے دس (۱۰) عدد بنتے ہیں۔اسی طرح ہر نام کے علیحدہ اعداد ہوتے ہیں۔جب اللہ کے نام مختلف نام رکھ دئیے گئیے تو ابجد کے حساب سے ایک دوسرے سے ٹکراوکا سبب بن گئیے ۔اگر سب ایک ہی رب کو پکارتے تو مذہب جُداجُداہونے
کے باوجود،اندر سے ایک ہی ہوتے ۔پھر بابا گرونانک اور بابا فریدؒ کی طرح یہی کہتے
سب روحیں اللہ کے نور بنی ہیں ۔لیکن ان کا ماحول اور ان کے محلے الگ الگ ہیں
جن فرشتوں کی دنیا میں ڈیوٹی لگائی جاتی ہے ،انہیں اسی دنیا والوں کی بولی بھی سکھائی جاتی ہے۔امتیوں کے لئیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نبی کا کلمہ،جو نبی کے ذمانے میں امت کی پہچان،فیض اور پاکیزگی کے لئیے رب کی طرف سے عطا ہوا تھا ، اُسی طرح اُسی ذبا ن میں کلمہ کی تکرار کیا کرے ۔کسی کو کسی بھی مذہب میں آنے کے لئیے یہ کلمے شرط ہیں۔جس طرح نکاح کے وقت ذبانی اقرار شرط ہے ۔ جنتوں میں داخلے کے لئیے بھی یہ کلمے شرط کر دئیے گئیے ۔لیکن مغربی ممالک میں بیشتر مسلم ممالک اور عیسائی اپنے مذہب کے کلموں حتی کہ اپنے نبی کے اصلی نام سے بے خبر ہیں۔ذبانی کلمے والے اعمال صالح کے محتاج،کلمہ نہ پڑھنے والے والے جنت سے باہراور جن کے دلوں میں بھی کلمہ اُتر گیا تھا ،وہی بغیر حساب کے جنت میں جائیں گیں۔آسمانی کتابیں جو جس ذبان میں بھی اصلی ہیں۔وہ رب تک پہنچانے کا زریعہ ہیں ،لیکن جب ان عبارتوں اور ترجموں میں ملاوٹ کر دی گئی،جس طرح ملاوٹ شدہ آٹا پیٹ کے لئیے نقصان دہ ہے،اس ی طرح ملاوٹ شدہ کتابیں دین میں نقصان بن گئیں ہیں اور ایک ہی دین ،نبی والے کتنے فرقوں میں بٹ گئیے ۔
صراطِ مستقیم کے لیے بہتر ہے کہ تم نو ر سے بھی ہدایت پا جاؤ

نور بنانے کا طریقہ 
پرانے ذمانے میں پتھروں کی رگڑ سے آگ حاصل کی جاتی تھی ۔جبکہ لوہے کی رگڑ سے بھی چنگاری اُٹھتی ہے ۔پانی پانی سے ٹکرایا تو بجلی بن گئی۔اس طرح انسان کے اندر کے خون کے ٹکراؤیعنی دل کی ٹک ٹک سے بھی بجلی بنتی ہے ۔انسانی جسم کے اندر تقریبا ڈیڑہ والٹ بجلی موجود ہے ،جس کے زریعے اس میں پُھرتی ہے ،
بڑھاپے میں ٹک ٹک کی رفتار سست ہونے سے بجلی میں بھی اور چستی میں بھی کمی آجاتی ہے ۔سب سے پہلے دل کی دھڑکنوں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ڈانس کے ذریعے،کوئی کبڈی یا ورزش کے زریعے اور کوئی اللہ اللہ کی ضربوں سے یہ عمل کرتے ہیں ۔
جب دل کی دھڑکنوں میں تیزی آجاتی ہے پھر ہر دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ یا ایک دھڑکن کیساتھ’’اللہ‘‘ اور دوسری دھڑکن کیساتھ ’’ہو‘‘ ملائیں۔کبھی کبھی دل پر ہاتھ رکھیں،دھڑکنیں محسوس ہوں تو اللہ ملائیں،کبھی نبض کی رفتار کے ساتھ اللہ ملائیں۔تصور کریں کہ اللہ دل میں جا رہا ہے ۔اللہ ہو کا زکر بہتر اور ذود اثر ہے ،اگر کسی کو ’’ہو‘‘پر اعتراض یا خوف ہو تو وہ بجائے محرومی کے دھڑکنوں کے ساتھ اللہ اللہ ہی ملاتے رہیں،وردو وظائف اور ذکوریت والے لوگ جتنا بھی پاک صاف رہیں اُن کے لےئے بہتر ہے ۔کہ:
بے ادب ،بے مُراد۔۔۔۔ با ادب ، با مُراد

پہلا طریقہ ۔۔ 
کاغذ پر کالی پینسل سے اللہ لکھیں،جتنی دیر طبیعت ساتھ دے ،روزانہ مشق کریں
ایک دن لفظ اللہ کاغذ سے آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جائے گا پھر آنکھوں سے سے تصور کے زریعے دل پر اُتارنے کی کوشش کریں۔

دوسرا طریقہ :
زیرو کے سفید بلب پر پیلے رنگ سے اللہ لکھیں،اُسے سونے سے پہلے یا جاگتے وقت آنکھوں میں سمونے کی کوشش کریں۔جب آنکھوں میں آجائے تو پھر لفظ اللہ کو دل پر اُتاریں۔

تیسرا طریقہ :
یہ طریقہ ان لوگوں کے لئیے ہے جن کے راہبر کامل ہیں،اور تعلق اور نسبت کی وجہ سے روحانی امداد کرتے ہیں۔تنہائی میں بیٹھ کر شہادت کی انگلی کو قلم تصور کریں اور تصور سے دل پر لفظ اللہ لکھنے کی کوشش کریں ،راہبر کو پکاریں کہ وہ بھی تمہاری انگلی پکڑ کر تمہارے دل پر اللہ لکھ رہا ہے یہ مشق روزانہ کریں جب تک دل اللہ لکھا نظر نہ آئے ۔
پہلے طریقوں میں اللہ ویسے ہی نقش ہوتا ہے ، جیساکہ باہر لکھا یا دیکھا جاسکتا ہے۔پھر دھڑکنوں سے اللہ ملنا شروع ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ چمکنا شروع ہو جاتا ہے۔چونکہ اس طریقے میں راہبر کامل کا ساتھ ہوتاہے ۔اس لئیے شروع سے ہی خوشخط اور چمکتا ہوا دل پر اللہ لکھا نظرآتا ہے ۔
دنیا میں کئی نبی ولی آئے، زکر کے دوران بطور آذمائش باری باری،اگر مناسب سمجھیں تو سب کا تصور کریں جس کے تصور سے ذکر میں تیزی اور ترقی نظرآئے ،آپ کا نصیبہ اُسی کے پاس ہے ۔پھر تصور کر کے لےئے اسی کو چُن لیں،کیونکہ ہر ولی کاقدم کسی نہ کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہے ،بے شک نبی ظاہری حیات میں نہ ہو ۔
اور ہر مومن کا نصیبہ کسی نہ کسی ولی کے پاس ہوتا ہے۔ولی کی ظاہری حیا ت ضروری ہے ۔لیکن کبھی کبھی کسی کو مقدر سے کسی ممات والے کامل ذات سے بھی ملکوتی فیض ہو جاتا ہے ،لیکن ایسا بہت ہی محدود ہے ۔البتہ ممات والے دربارو ں سے دنیاوی فیض پہنچا سکتے ہیں ۔ اسے اویسی فیض کہتے ہیں اور یہ لوگ اکثر کشف اورخواب میں الجھ جاتے ہیں، کیونکہ مرشد بھی باطن میں اور ابلیس بھی باطن میں۔ دونوں کی پہچان مشکل ہوتی جاتی ہے ۔
فیض کے ساتھ علم بھی ضروری ہوتا ہے،جس کے لئیے ظاہر ی مرشدذیادہ مناسب ہے ،اگر فیض ہے ،علم نہی تو اُسے مجذوب کہتے ہیں۔فیض بھی ہے اور علم بھی اُسے محبوب کہتے ہیں۔محبوب علم کے زریعے لوگوں کو دنیاوی فیض بھی پہنچاتے ہیں،جبکہ مجذوب ڈنڈوں اور گالیوں سے فیض پہنچاتے ہیں ۔

اگر کوئی بھی آپکی مدد نہ کرے تو پھر آپ گوہر شاہی کو آذما کر دیکھیں۔مذہب کی قید نہی ،البتہ اذلی بدبخت نہ ہو ۔بہت سے لوگوں کو چاند سے بھی ذکرعطا ہو جاتا ہے ۔اُس کا طریقہ ہے جب بھی پورا چاند مشرق کی طرف ہو ،غور سے دیکھیں،جب صورتِ گوہر شاہی نظرآجائے۔تو تین دفعہ اللہ اللہ اللہ کہیں ،اجاذت ہوگئی ۔پھر بے خوف و خطر درج شدہ طریقے سے مشق شروع کر دیں۔یقین جانئیے ،چاند والی صورت بہت سے لوگوں سے ہر ذبان میں بات چیت بھی کر چُکی ہے ۔آپ بھی دیکھ کربات چیت کی کوشش کریں۔
ذکر کیا ہے اور فکر کیا ہے

اسلام کے پانچ ارکان ہیں، کلمہ، نماز،روزہ، حج،ذکواۃچار وقتی ہیں جو مقررہ وقت پر ادا کرنے ہوتے ہیں۔لیکن ایک کلمہ دائیمی ہے

افضل الذکر کلمہ طیب یعنی کلمہ طیب ذکرمیں ہے اور ذکر کے لئیے قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے :
فاذا قضیتم الصلواۃ فاذکر و اللہ قیاماو قعوداعلی جنوبکم
ترجمہ :جب نماز پوری کر لو تو اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جاؤ۔کھڑے بھی ، بیٹھے بھی ،اور کروٹ کے بل بھی ۔( سورۃ النساہ آیت نمبر103)

کلمہ طیبہ کے چوبیس حروف ہیں: لاالہ الا اللہ بارہ لفظ جلالی اور بارہ جمالی :محمد الرسول اللہ ( ﷺ) اس کے پورے ذکر سے انسان معتدل رہتا ہے اوریہ دوائی کے طرح ہے لیکن جلدی اثر کے لےئے جو ٹیکہ کی طرح ہو وہ عرق یو ں ہے بارہ لفظ کی تلخیص چار لفظ’’ال ل ھ‘‘میں ہے ۔اللہ اس کے نام کی طرف اشارہ ہے یہ لفظ شریعت والوں کے لئیے ہے اور اسکا عالم ناسوت ہے اللہ کا الف ہٹایا جائے تو للہ رہ جاتا ہے۔یہ اس کے زریعہ اور واسطہ کو ظاہر کرتا ہے اس کا مقام طریقت اور عالم ملکوت ہے ۔للہ کا لام ہٹایا جائے تو لہُ رہ گیا جوضمیر اسم اللہ ذات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کا مقام حقیقت اور عالم جبروت ہے لہُ کا لام ہٹایا جائے تو سب کا نچوڑ ھو رہ گیا ۔ھو اس ذات کی طرف اشارہ ہے اس کا مقام معرفت اور عالم لاہوت ہے اسی ھو سے سالک فنا ہو جاتا ہے یعنی فنائے نفس اورفنائے گناہ۔بہت سے لوگ ھو کے ذکر سے ڈرتے ہیں کہ یہ تباہ کر دیتا ہے اور ویرانوں میں کرنے کا ہے واقعی یہ نفسوں کو تباہ کردیتا ہے۔اور جن لوگوں پر نفس سوارہیں وہ اس ھو سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کوا تیر سے۔لیکن بطور مسلمان کہلوانے اس زکر کا انکار بھی نہی کر سکتے ،کہتے ہیں کہ ذکر خفی کرو۔ذکر جہر کی مخالفت کرتے ہیں ۔لیکن ذکر جہر ہی وسیلہ زکر قلبی ہے۔ذبان سے اقرار اور قلب سے تصدیق ہے ۔حدیث شریف میں ذکر جہر کے بارے میں آیا کہ :
ان فی ذکر جہر عشر فوائد الاول صفاء القلوب و تنبیہہ الغافلین و صحتہ الابدان و محاربتہ یاعذاء اللہ تعالی و اطہار الدین ونفی خواطر اشیطانیہ النفسانیہ النفسانیتہ والتوحید الی اللہ تعالی والاعراض عن غیر اللہ تعالی رفع الحباب بینہ و بین اللہ تعالی ( الوابل العیب)
ترجمہ :ذکر جہر میں دس فائدے ہیں ۱ ۔دل کی صفائی ۲۔غفلت سے تنبہیہ ۳۔جسم کی صحت۴۔اللہ تعالی کے دشمنوں سے جنگ۵۔اظہارِ دین۶۔علاج شیطان ۷۔علاج نفسانی ۸۔توجہ الی اللہ ۹۔غیر اللہ سے نفرت ۱۰۔خدا اور بندے کے درمیان سے حجاب اُٹھ جانا ۔
لیکن اگر کسی کے ہفت اندام ذکر خفی میں ہیں تو زکر جہر سے بیک آواز سالک کے سینے میں شور برپا کر دیتے ہیں اورذاکر کے بال بال سے ذکر کی آواز گونجتی ہے

طریقہ ذکر :
ذکر جہر کے وقت دو ذانوں بیٹھے دل پر ضربیں لگائے اگر شریعت میں تو دل پر تصور ’’اللہ‘‘ کا اور اگر طریقے میں تو لفظ ’’للہ‘‘ جمائے ذکر دوران دنیاو مافہیا سے خیال ہٹا کر یکسوئی پیدا کرے ،تصورخیال اور ذکر سے جلد منزل کو پہنچے گا۔اس قسم کا ذکر جہر ذیادہ دیر قائم نہی رہ سکتا کیونکہ سانس پھول جاتا ہے اور سینے میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور حلق خشک ہو جاتا ہے اس کے بعد ذکر کرے جیسا کہ حضور پاک ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا :
غمض عینیک یا علی واسمع فل قلبک لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ( ﷺ)
ترجمہ :اے علی تو اپنی آنکھیں بند کر اور اپنے دل میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ( ﷺ) سُن۔( مشکوۃ شریف )
جب بیٹھ کر ذکر خفی کر چکے تو پھر چلتے پھرتے کام کاج کرتے حتی کے بستروں کروٹوں پر بھی اللہ کا ذکر خفی کرتا رہے۔آج کل جو ذکرجہر کیا جاتا ہے وہ واقعی قابل اعتراض اور بے سود ہے جیسا کہ سڑکوں پر ٹولیوں کی شکل میں ذکر جہر کرتے جا رہے ہیں خیال و نظر آنے جانے والوں اور دیکھنے والوں کی طرف ہے ۔اسی قسم کے ذکر جہر کی ممانعت کی گئی ہے۔کیونکہ اس میں فکر ، ادب اور مراقبے کا کوئی پاس نہی ۔جبکہ مخالفین ہر قسم کا اعتراض ذکر جہر پر کرتے ہیں۔جس طرح قرآن پاک میں بار بارنماز کا حکم آیا اسی طرح بار بار ذکر کا حکم بھی آیا اگر کوئی شریعت میں تو روزانہ پانچ ہزار دفعہ ذکر کر ے اگر کوئی عالم شریعت میں ہے تو اسے پچیس ہزار دفعہ روزانہ ذکر کرنا پڑتا ہے تب اسکو مقتدیوں پر فضیلت ہے
اگر کوئی راہ طریقت میں چل رہا ہے یا پھر فقیر ہے تو وہ 72ہزار دفعہ روزانہ ذکر کرے ورنہ محض ذبانی دعوی ہے ۔یہ ذکر خواہ جہری ہو یا قلبی لیکن ذکرجہر سے ذیادہ فضیلت ذکر قلبی کو ہے البتہ اگر قلب کا منہ کھل جائے اگر قلب خفی میں ہو اور ذبان ذکر جہر میں ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے۔
اللہ تعالی کے نناوے نام ہیں صرف اللہ ذاتی اور باقی صفاتی ہیں ۔حضرت عیسی علیہ اسلام یا قدوس کا ورد ( ذکر ) کیاکرتے تھے حضرت سلیمان علیہ اسلام یاوہاب کا اور حضرت داود وعلیہ اسلام یا ودود کا اور حضرت موسی علیہ اسلام کو یا رحمن صفاتی اسماء ملے ۔ ان اسماء سے ان کے کے جسموں کے اندر جو نور آیا وہ صفاتی تھا اگر انہوں نے اپنی حیاتی میں ر ب کو دیکھنا چاہا ت ذاتی نور کی تاب نہ لا سکے لیکن یہ ذاتی اسم حضور پاک ( ﷺ) کو ملا تب ہی جہاں حضرت موسی علیہ اسلام بہوش ہوے وہاں آپ ﷺ مُسکرا رے ہیں آپ ﷺ کے طفیل یہ اسم مبارک آپ ﷺ کی امت کو ملا تبھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے ولیوں پر بنی اسرائیل کے نبی بھی رشک کریں گےَ
اس ذاٹی اسلم کے طفیل اس امت کو فضیلت دی گئی اور اسی اسم کا نور اس امت کی پہچان ہو گا وہ اسم جس کے لئیے نبی بھی رشک کرتے رہے اور امتی ہونے کی التجا کرتے رہے افسوس کہ اب امت اس سے محروم ہو گئی ۔
باقی ہر اسم کسبی ہے لیکن اسم اللہ عطائی ہے یہ اپنی محنت سے نہی جمتا اس کے لئے مرشد کام ضروری ہے ۔ بعض لوگ اپنے کسب سے اس اسا8 کو جمانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس کی تاب نہ لا کر دیوانے ہو جاتے ہیں یا رجعت میں چلے جاتے ہیں یا ان کو اس اسم سے کچھ فیض حاصل نہی ہوتا الٹا بدگمان ہو جاتے ہیں لیکن اس اسم سے بدگمانی ’’کافری نہی تو اور کیا ہے ؟‘‘
بے شک یہ اسم جلالی ہے لیکن قانون قدرت ہے کہ کوئی بھی چیز گرمی کے بغیر نہی پکتی جب کو ئی چیز جلنے کو ہوتی ہے تو اللہ تعالی باران رحمت برسا دیتا ہے جس سے وہ ذیادہ نشوونما پاتی ہے اس جلالی ذکرکی باران رحمت ذکر حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ ہے۔یہ عطائی زکر دو طرح سے ملتا ہے ایک کسی مرشد کامل کی حیات سے دوسرا کسی کامل ذات کی قبر سے جسے سلسلہ اویسیہ کہتے ہیں جیسا کہ حضرت بایذید بسطامی ؒ کو حضرت امام جعفر ؒ سے روحانی فیض حاصل ہوا جبکہ آپ کی پیدائش حضرت امام جعفر ؒ کے فوت ہو جانے کے بعد ہوئی اور حضرت ابوبکر حواریؒ کو جن سے سلسلہ حواریہ چلا ان کو فیض حضر ت ابوبکرؓ سے ہوا جن میں کئی سوسال کا فرق تھا اور حضرت سخی سطان باہو ؒ کو باطن میں حضور علیہ الصلواۃ واسلام نے دست بیعت کیا ، تب تو آپ نے نور الہدی میں لکھا کہ ۔
دست بیعت کردمارامصطفی
ولد خودکواند است مارا مجبتیٰ

ذکوریت 
قرآن و حدیث اور اقوال اولیائے عظام کی روشنی میں :
۱۔زکر کرو اللہ کا کھڑے ،بیٹھے ،اور کروٹوں لیتے بھی (القرآن)
۲۔تم میرا زکر کرو میں تمھارازکر کروں گا (القرآن)
۳۔ہر چیز کے لئیے صیقل ہوتی ہے ۔اور قلب کی صیقل ذکر اللہ ہے(حدیث)
۴۔طالب اللہ کو ذکر اللہ کے سوا اور کوئی چیز سے تشفی نہی ہوتی (حدیث)
۵۔دنیا و مافہا ملعون۔مگر ذکر اللہ (حدیث)
۶۔اگر کوئی مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی دل میں اسے یا دکرتا ہوں۔اگرکوئی مجھے محفل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُسے فرشتوں کی محفل میں یاد کرتا ہوں(حدیث)
۷۔اگر کوئی شخص تمام عمر نماذ،روزہ،حج،ذکواۃ ادا کرتارہے مگر اسم ذات اللہ اور اسم محمد ﷺ سے بے خبر ہو اس کے مطالعہ میں نہ رہے تو ساری عبادتیں رائیگاں ہیں ( حضرت سخی سلطان باہو ؒ )
۸۔جس شخص کو ذکر اللہ سے غصہ آتا ہے ، وہ دشمن خدا ہے یا منافق ، کافر،یا حاسد متکبر ہو گا ( حضرت سخی سلطان باہو ؒ )
۹۔ذکر قلبی کا ثواب درودشریف کے ثواب سے بھی کئی گنا ذیادہ ہے ( حضرت مجدد الف ثانی ؒ )
۱۰۔عورتیں بھی ذکر جہر کر سکتی ہیں ( حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ )
۱۱۔معلوم ہو تیرا دل اچھائی کی بائیں جانب ہے اس کے دو دروازے ہیں اوپر کا دروازہ زکر جلی سی کھلتا ہے اور نیچے کا ذکر خفی سے ( شاہ ولی اللہ ؒ )
۱۲۔مجدد الف ثانی ؒ سے ایک خادم کا سوال کہ آپ زکر جہر سے منع کیوں فرماتے ہیں
حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا جواب ! میرے مخدوم !
ٓآنحضرت ﷺ کا عمل دو طرح پر ہے ایک عبادت کے طریق پر دوسرا عرف وعادف کے طور پروہ عمل جو عبادت کے طور پر ہے کے خلاف کرنا بدعت منکر ہ جانتاہوں اس کے منع کرنے میں بہت مبالغہ کرتا ہوں کہ یہ دین میں نئی بات ہے اور وہ بات مردود ہے اور دوسرا عمل جو عرف وعارف کے طور پر ہے اس کے خلاف کو بدعت اور منکرہ نہی جانتا اور نہ ہی منع کرنے میں مبالغہ کرتا ہوں کہ وہ دین سے تعلق نہی رکھتا ۔اس کا ہونا یا نہ ہونا عرف و عارف پر مبنی ہے نہ کہ دین و مذہب پر ۔
کیونکہ بعض شہروں میں عرف کا بعض شہروں کے عرف کے خلاف برخلاف ہے اور ایسے ہی ایک شہر میں ذمانوں کے تفاوت کے اعتبار سے عرف میں تفاوت ظاہر ہے ، البتہ عادی سنت کو مدنظر رکھنا بھی بہت سے فائدوں اور سعادتوں کا موجب ہے ۔

مکتوبات مجدد الف ثانیؒ 
صفحہ نمبر ۲۳۱
ذکر جہر
حمایتی ذکر
حضرت ابوہریرہؓ ۔۔۔ذکر بلجہر جائز ہے
حضرت ابن عباسؓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث مسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث بخاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسائی ۔داود شریف ۔۔۔۔۔۔۔۔
ترمزی ابن ماجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ ابن زبیرؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔
امام احمد حنبل ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ؑ غوث اعظم دستگیر ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بخاری ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ عبدالحق دہلویؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ولی اللہ ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبیر احمد عثمانی ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام شافعی ؒ ۔جائز ہے جنازہ کے ساتھ بلجہر منع ہے
طریقہ نقشبندیہ میں ذکر جہر منع ہے لیکن کرنے میں کوئی حرج نہی
مولوی اشرف تھانوی ۔آہستہ آواز میں جائز ہے
گنگوہی صاحب۔ جائز ہے لیکن گلاپھاڑنا منع ہے
مخالف ذکر
مولوی سرفراز گھگھڑوی۔ذکر بلجہر حرام ہے
صاحب بزازیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث عبداللہ ابن ذید ۔ذکر بلجہر بہتر نہی
محمد بن عبدالرحمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سعد ابن وقاص۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4-5 / 7

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top