Home Authors Posts by Usman

Usman

72 POSTS 0 COMMENTS

Wah Cantt Speech of Hazrat Gohar Shahi

حضرت سیدنا ریاض احمد گوھرشاہی مدظلہ العالی
واہ کینٹ روحانی خطاب
آعوذبااللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عزیز ساتھیوں السلامْ علیکمْ:۔
آپ کے شہر میں اِس سے پہلے بھی دو دفعہ آنا ہوا۔ آنے کا مقصد کوئی سیاست نہیں ہے۔ کسی فرقے کی دِل آزاری نہیں ہے۔ کوئی حکومت پر نْکتہ چینی نہیں ہے۔ ہر شہر میں، ہر مْحّلے میں، ہر گھر میں کچھ دل والے ہوتے ہیں۔ اْنکو نکالنا مقصد ہے، اور دل کی آواز اْنکے ضمیروں تک پہچانا مقصود۔
حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے ذمانے میں دو طرح کا علم تھا۔ایک زبان والوں کے لیے جس کو شریعت کہتے ہیں۔اور ایک دل والوں کے لیے جس کو طریقت کہتے ہیں۔آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جن لوگوں نے ظاہری علم پر قناعت کری، اْنھی میں سے کوئی خوارج ہوا اور کوئی منافق ہوا۔ اور جن لوگوں نے وہ دل والا علم بھی حاصل کیا وہ تو صحابی یا رسْول اللہ ﷺ کہلائے ولیّوں سے بھی اعلی مقام حاصل کر کے چلے گئے۔اور آج اِس زمانے میں جو لوگ صرف ظاہری علم پرقناعت کیے بیٹھے ہیں ، وہ تو72 فرقوں میں تقسیم ہو گے۔
اب زبانی علم کی وضاحت ضروری نہیں وہ تو ہر کوئی جانتاہی ہے۔ وہ دل والا علم جس کو مْسلمان بھولا اور 72 فرقوں میں تقسیم ہو گیا۔ اب صرف فرقے رہ گئے، اصل کوئی نہیں، سْنی بھی فرقہ، شیعہ بھی فرقہ، وہابی فرقہ سارے فرقے ہیں نا۔ تو جس سے یہ نکلے ہیں وہ تو کوئی اور ہو گا نا۔ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کسی حدیث میں نہیں مِلتا ہے کہ سْنی ہے، شیعہ ہے، تو وہابی ہے، وہاں مِلتا ہے یہ میرا اْمتی ہے۔
اور اْمتی کی نشانی ہے جس میں اللہ کا نور ہے وہ میرا اْمتی ہے۔
اور جب اْن میں سے نور نکلتا گیا نا، تو سْنی، شیعہ ، وہابی بنتے گئے نا۔اب جس طرح سْنی اندر سے کالا ، اِسطرح شیعہ بھی اندر سے، تو وہابی بھی اندر سے کالا،سارے اندر سے کالے ہیں نا۔ اگر اِن میں نْور آجائے تو کبھی نہیں کہیں گئے میں سْنی ہوں، میں شیعہ ہوں، میں وہابی ہوں۔ بس یہ ہی کہیں گئے، بس اْمتی ہوں تْمھارا یا رسْول اللہ ﷺ میں صرف اْمتی ہوں۔
اب وہ نْور آئے تو نا، اب وہ نْور کیسے آتا ہے۔” اِک سِکھ نے کہا کہ تْمھارے عْلماء کہتے ہیں کہ قرآن میں نْور ہے۔ میں تْمھارا جاسوس رہ کر آیا ، بیس ، پچیس سال تْمھارے بچوں کو قرآن پڑھتا رہا نمازیں بھی پڑھتا رہا،میں تو نْوری کوئی نا ہوا” فورًا ایک عیسائی بولاکہ ” میں بھی تْمھارے قرآن کا شب و روز مطالعہ کرتا ہوں نْوری میں بھی نہیں ہوا، تو ہم نے کہا کہ دراصل بات یہ ہے تم نے دل سے نہیں پڑھا اور کیا کہتے!تم نے دل سے نہیں پڑھا، کہنے لگے ٹھیک ہے کہ ہم نے دل سے نہیں پڑھا تمھارے مْسلمان تو دل سے پڑھتے ہیں نا، تو وہ نْوری کیوں نہیں ہوئے۔ وہ ایک دوسرے کو کافر، مْنافق کیوں کہتے ہیں۔ بات تو بڑی صحیح تھی، جواب بڑا مْشکل تھا۔
جس طرح انگریز آیا اْس نے کہا کہ تْمھارے دریاؤں میں بجلی ہے، ہم نے کہا یہ غلط کہتا ہے بعد میں اْسی انگریز نے اِن پانی سے، دریاؤں سے بجلی بنا کر دیکھائی۔ اب قرآن میں وہ کہتے ہیں نْور ہے۔قران میں نْور جو ہے، قرآن پڑھنے والے کو نْور بنانے کا پتہ کوئی نہیں ہے۔ قرآن سے نْور بنایا جاتا ہے۔ وہ جو نْور ہے وہ جو قرآن ہے، وہ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے سینے مْبارک میں ہے نا۔ وہ تو بنا بنایا جنریٹر ہے، بنا بنایا نْور ہے۔ وہ جس سینے سے ٹکڑاتا ہے وہ نْوری ہو جاتا ہے نا۔اٍس قرآن سے نْور بنایا جاتا ہے۔ اب نْور کیسے بنایا جاتا ہے۔ قران پڑھنے والوں کو بھی کوئی نہیں پتہ، اگر پتہ ہوتا تو سارے نوری ہو جاتے۔ جس طرح پانی پانی سے ٹکڑایا بجلی بن گئی،لوہا لوہے سے ٹکڑایا چنگاری اْٹھی۔ قرآن کی آیتیں جب آیتوں سے ٹکرائیں تو وہ نْور بنا، نا۔ آیتیں جب آیتوں سے ٹکراتی ہیں تو نْور بنتا ہے نا۔
’’پورے قرآن کا جو مجموعہ ہے اسم ذات ہے۔‘‘
خواہ قرآن کی آیتیں لے لو خواہ اللہ اللہ لے لو۔ اب یہ جو لوگ اللہ اللہ کرتے ہیں، تسبیح کے ساتھ اللہ اللہ کرتے ہیں، کوئی مقصد ہو گا نا۔ اگر اللہ اللہ کرنا تو اِس تسبیح کی کیا ضرورت ہے، بغیر حساب کے بھی کر سکتا ہے نا۔ تو ہمارے اکابر نے جو سِکھایا تو اِس میں کوئی راز ہو گا، نا، جب
وہ ٹِک ٹِک کے ساتھ اللہ اللہ ملتا ہے تو پھر وہ نْور بنتا ہے نا۔ پھر وہ نْور انگلیوں میں رہتا ہے اندر نہیں جاتا ہے۔ وہ تْمھارے کھاتے میں جمع ہو جائے گا اور یومِ محشر میں ملے گا۔ تسبیح رولنے والوں کو بھی پتہ نہیں کہ ہم تسبیح کیوں رولتے ہیں۔ ایک سو ایک دفعہ اللہ اللہ ہوتی ہے تو معمولی سی نْور کی چنگاری اْٹھتی ہے۔ مْسلسل یہ دس بارہ دفعہ تسبیح پڑھتے ہیں اور پوچھتے ہیں بھائی کیا حال ہیں؟ خیر ہے!وہ تسلسل تو ٹوٹ گیا، نا۔ وہ نْور تو بنا ہی نہیں نا، اْس سے بہتر تھا کہ تو بغیر تسبیح کے اللہ اللہ کرتا۔ اب کچھ لوگ زبان سے اللہ اللہ کرتے ہیں وہ بھی نْور بنتا ہے وہ بھی باہر جاتا ہے اندر تو نہیں جاتا ہے نا۔ کچھ لوگ سانس سے اللہ ہوکرتے ہیں۔ تو سانس واں کا نْور صرف پھیپھڑوں تک ہے اندر وہ بھی کوئی نہیں جاتا ہے۔ وہ پھیپھڑوں کی صفائی کرتا ہے دل میں نہیں جاتا ہے۔ اگر دل میں ہوا چلی جائے تو بیماری بن جائے نا۔پھر کچھ لوگوں نے وہ جو دل کی ڈھڑکنیں ہیں ٹک ٹِک کر رہی ہیں اْس ٹِک ٹِک کے ساتھ اللہ اللہ مِلایا۔ جب اللہ اللہ کا رگڑا لگا تو پھر وہ اندر نْور بننا شروع ہو گیا نا۔ تو وہ نْور باہر نہیں گیا وہ نْور خون میں چلا گیا ،جب خون میں گیا تو خون سے پھر وہ نسوں میں گیا، نسوں سے پھر وہ روحوں تک پہنچا جب روحوں تک پہنچا تو روحوں نے اندر اللہ اللہ کرنا شروع کر دی تو قبر میں بھی جا کر بھی اللہ اللہ کرتی رہے گئی اور یومِ محشر میں بھی اللہ اللہ کرتی رہے گئی۔
اب وہ جو اللہ کا نْور ہے وہ جسم اْسکو باہر جانے نہیں دیتا، پیاسا ہے جسم
کب سے پیاسا ہے۔ اِ س میں جو روح ہے وہ پیاسی ہے جو دل ہے وہ پیاسا ہے وہ جو اللہ کا نْور ہے اب اْس دل میں جا کر اکٹھا ہو گیا۔ جب وہ نْور دل میں اکٹھا ہو گیا۔ اب یہاں بجلی کا وہ پڑا ہوا ہو ٹیلیفون کیا بولتے ہیں موبائل بجلی کی لہریں یہاں سے اْٹھتی ہیں، امریکہ جا پہنچاتی ہیں، بجلی میں طاقت ہے۔ اگر کسی جگہ نْور ہو گا تو اْسکی لہریں اْٹھیں گیءں تو وہ کہا جائیں گیءں وہ تو سیدھی عرش معٰلی میں پہنچے گیں۔ جب حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم شب معراج میں گئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نمازیں دیں کیوں دیں؟ اپنی اْمت کو دے دینا تحفے کے لیے۔ اگر کوئی شخص نماز نہ پڑھے تب بھی اْسکی شان گھٹی تو نہیں ہے نا۔ اْس نے پھریہ نمازیں کیوں بھیجیں ہیں ہمارے لیے۔ رکوع ،سجود کیوں، گھڑی گھڑی کیوں، کہ یہ اپنی اْمت کو دے دینا یہ تحفے وہ مجھے بھیجیں گئے۔ پھر ہم ایک دوسرے کو یاد رہیں گئے نا۔ پھر میں اْنکو یاد رہوں گا وہ مجھے یاد رہیں گئے۔ اب وہ تحفے اِس دنیا میں آگئے۔ اب اِس دْنیا سے واپس وہاں پہنچانے کے لیے ایک نْوری ٹیلیفون چاہیے۔ اگر تیرے اندر ٹیلیفون ہے تو تیرے تحفے اللہ تک جائیں گئے۔ اگر تیرے اندر ٹیلیفون نہیں تو تیرے تحفے یہیں گھومتے پھرتے
رہیں گئے۔ اِسکو بولتے ہیں نماز صورت اور جب اِس کے ذریعے ٹیلیفون کے ذریعے تحفے وہاں جاتے ہیں ، اِس کو بولتے ہیں نماز حقیقت۔ اِس کو بولتے ہیں نماز مومن کا معراج ہے۔
وہ جسکی نماز اوپر نہیں جاتی وہ مومن نہیں وہ مْسلمان ہے اور جسکی نماز اوپر جاتی ہے وہ مومن ہے۔
سورۃ الحجرات میں تشریح ہے مومن کی ” اعراب نے کہا کہ ہم اِیمان لے آئے،اللہ تعالٰی نے فرمایا، نہیں اِنکو کہو کہ صرف اِسلام لائے مومن تب بنوں گئے جب نْور تمھارے دل میں اْترے گا،جب دل میں نور اْترے گا ، تب تم مومن بنو گے نا۔
اِس کے بعد مومن کی نماز اِسکو حقیقت بولتے ہیں۔ آگے ولی ہے اْسکی نماز کو نمازِعشق بولتے ہیں۔ نماز عشق کیوں بولتے ہیں؟ اب وہ جو اللہ اللہ ہو رہی ہے، اللہ اللہ کے نْور سے وہ جو تمھارے اندر مخلوقیں ہیں اْنکی پرورش ہو رہی ہے۔ تمھاری غذا گوشت روٹی اْنکی غذا اللہ کا نور۔ اللہ کے نور سے پرورش ہو گی۔ جسطرح جنّ اور فرشتے ہیں، اِسطرح وہ مخلوقیں تمھارے اندر ہیں۔ جب وہ طاقت پکڑیں، جب وہ مخلوقیں طاقت پکڑتیں ہیں۔ تو اِس جسم سے نکلنے کی کوشش کرتیں ہیں۔ اْس وقت تم نے سوچا دیکھیں حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کیا کر رہے ہیں، تم نے سوچا وہ اِس سینے سے نکلیں اور حضور پاکْ ْ ﷺ کے قدموں میں۔ پھر جو اْنکا خانہ کبعہ ہے وہ اِدھر نہیں ہے، اِدھر تمھارا خانہ کبعہ ہے۔ اْنکا خانہ کبعہ بیت المعمور ہے۔پھر وہ بیت المعمورمیں جاتیں ہیں نمازیں پڑھنے کے لیے۔ مومن کی تو آواز گئی تھی نا، ولی کی تو روح وہاں جاتی ہے نماز پڑھنے کے لیے۔
وہ اْس وقت تک سر ہی نہیں اْٹھاتی ہے نا جب تک اللہ جواب نہ دے۔اللہ جواب دیتا ہے لبیک یاعبدی پھر وہ سر اْٹھاتی ہیں نا۔
جب یہ جسم بنایا گیا،اِس جسم میں چھہ مخلوقیں علوی ڈالیں گئیں، نا نوری نا ناری۔ ایک مخلوق ایسی ڈالی گئی،جسکا نام ہے نفس۔جب وہ نفس اِس جسم میں آیا تو بلھے شاہ نے فرمایا اِس نفس پلیت نے پلیت کیتا،آساں منڈھوں پلیت نہ سے۔ جوبھی تمھارے اندر گناہوں کی بیماری ہے وہ اِس نفس کے ذریعے ہے نا۔ یا تواِسکو پاک کر لویا اِس کو اندر سے نکال دو۔ اِس کو نکالنا بھی بڑا مشکل، اِس کو پاک کرنا بھی بڑا مشکل۔ نفس کو مارا بڑے موذی کو مارا۔ جب وہ نس نس میں اللہ اللہ جاتا ہے، نس نس میں جاتا ہے، وہ جو نفس ہے وہ ناف میں بیٹھا ہوا ہے۔ جب نماز پڑھتے ہیں تو اْسی کو دبا کے رکھتے ہیں۔ وہ ناف میں ہے۔ اْس نفس تک بھی وہ نور جاتا ہے، چاروں طرف سے وہ نور اْسکو گھیر لیتا ہے۔ نفس کی غذا نار ہے جو ہم کھانا کھاتے ہیں یا ہوا کے ذریعے جاتی ہے۔ جب وہ نار اندر جاتی ہے وہ جو نور ہے وہ اْسکو جلا دیتا ہے،پھر غذا اندر جاتی ہیوہ نور اْسکو جلا دیتا ہے۔ اب اْس نفس کو بھوک لگتی ہے۔وہ مخلوقیں ہیں ایک دوسرے سے باتیں بھی کرتے ہیں۔اْس وقت وہ اپنے ہمسیاؤں کو کہتا ہے کہ کچھ غذا دو جینے کے لیے وہ کہتے ہیں یہ نور کا لقمہ ہی لے لے ،کلمہ پڑھ۔ کوئی نفس سرکش ہوتے ہیں وہ کلمہ نہیں پڑھتے ہیں نہ نوری غذا لیتے ہیں وہ مر ہی جاتے ہیں، وہ مر گئے جان چھوٹ گی۔ اور کوئی نفس ہیں جو ذرا ڈرپوک قسم کے ہوتے ہیں وہ زندہ رہنے کے لیے پھر کلمہ پڑھتے ہیں۔ جب کلمہ پڑھتے ہیں پھر اْنکو نور کی غذا ملتی ہے۔ وہ صرف زندہ رہنے کے لیے کلمہ پڑھتے ہیں۔ کلمے کے اثر سے وہ کالا کتا تھا، پھر وہ سفید کتا ہو جاتا ہے، پھر کلمہ پڑھتا رہتا ہے۔ اْسکی شکل بیل کی طرح ہو جاتی ہے۔ پھر کلمہ پڑھتا رہتا ہے اْسکی شکل بکرے کی طرح ہو جاتی ہے۔ پھرکلمے کے اثر سے اْسکی شکل تمھاری طرح ہو جاتی ہے۔ پھر اْس وقت تم نماز پڑھوں گے ساتھ وہ بھی نماز پڑھے گا۔ تم ذکراللہ کرو گے ساتھ وہ بھی جھومے گا۔
پھر اْسکو پکڑ کر حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی محفل میں لے جاتے ہیں۔ اْس وقت پھر حضورپاک اور حاضرین عش عش کر اْٹھتے ہیں۔ آفرین ہے اِس کے اوپر اور اِسکے مْرشد کے اوپر۔ کتے کو پاک کیا اِنسان بنایا میری محفل میں لے آیا۔ اِسکو بولتے ہیں نفس مطمئنہ۔
پھر حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم اْسکو کچھ نوازتے ہیں۔ اب تو رسائی اِدھر ہوگئی نا۔اب باقی اللہ تک پہنچنا رہ گیا نا۔ بھئی تو بیت المعمور تک پہنچا، نا اللہ تک تو نہیں پہنچا نا۔ بیت المعمور میں تو فرشتے بھی ہیں نا ،جبرائیل علیہ السلام بھی ہیں نا۔ اللہ تو اِس سے بہت آگے ہے جہاں فرشتے بھی جلتے ہیں۔ سات آسمان ہیں، ملکوت، جبروت، لہوت۔ سات مخلوقیں اللہ نے تمہارے اندر رکھی ہیں باقاعدہ حدیث شریف میں اْن مخلوقوں کے نام ہیں قلب، روح، سِری، خفی، اخفٰی، انا ، نفس۔ ہو سکتا ہے اِسکو ملکوت کی طیر سیر کا شوق ہو۔ قلب کو طاقت ور کرلے گا ملکوت کی طیر سیر کر لے گا۔ ھو سکتا ہے اِسکوجبروت میں جانے کا شوق ھو،وہ لطیفہ روح کو طاقت ور کرلے گا جبروت میں چلے جائے گا۔ ھو سکتا ہے اِسکولاھوت میں جانے کا شوق ہو،وہ لطیفہ سّری کو مضبوط کرئے گا لاھوت میں چلا جائے گا نا۔ہوسکتا ہے کہ اْسکو اللہ کو دیکھنے کا شوق ہو۔ وہ ایک مخلوق ہے جو دماغ میں ہے، جس سے لوگ حافظ بن جاتے ہیں، وہ اللہ کا دیدار کرتی ہے۔ ھو سکتا ہے اْسکو اللہ کا دیکھنے کا شوق ہو وہ اِس لطیفہ انا کو مضبوط کریگا۔ اِس لطیفہ انا کا ذکر یا ھو ہے۔یا ھو کے نور سے یہ منور ھو جائے گا اور طاقت پکڑے گا۔پھر تم نے سوچا دیکھیں اوپر کیا ہو رہا ہے،تم نے دیکھا یہ اوپر پرواز کر گیا۔اِسکا مقام بیت المعمور نہیں ہے ،اسکا مقام اور ہی ہے۔اور اٍس کے لئے علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔
اوپر پرواز کر گیا بیت المعمور والے دیکھتے ہی رہ گئے۔ چلوجو کچھ بھی ہے بیت المعمورسے آگے جل جائے گا وہاں تو فرشتے بھی نہیں جا سکتے۔ اور یہ بیت المعمورسے بھی آگے پہنچ گیا، وہاں پہنچ گیا جہاں رب کی ذات ہے۔ ظاہری جسم سے حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے اور اِن مخلوقوں سے ولی وہاں پہنچتے ہیں۔ جب وہاں پہنچ گیا، بڑے دور سے گیا نا جی، بڑی محنت کر کے گیا نا، بڑی تیاری کر کے گیا نا، تو پھر ایک دوسرے کو پیار سے دیکھتے ہیں، بڑے پیار سے دیکھتے ہیں۔
پھراللہ فرماتا ہے میں تجھے دیکھ لوں تو مجھے دیکھ لے۔ اب یہ جسطرح اوپر سیارہ ہے،نیچے نقشہ بتا رہا ہے کہ اوپر کیا ہو رہا ہے۔ اوپر تمھارا لطیفہ ہے سارا نقشہ تمھارے دل میں آرہا ہے۔ اللہ کا سارا نقشہ اْسکے دل میں آجاتا ہے۔ پھر اللہ فرماتا ہے اب تو نیچے چلا جا،اب جو تجھے لے وہ مجھے دیکھ لے۔
بھئی اب فرشتوں کو یہ بات پتہ چلتی ہے۔ وہ اللہ تعالٰی کو دیکھنے کے بڑے مْشتاق تھے ،ہزاروں سال سے عبادت کر رہے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ فلاں بندہ ہے۔ جبرائیل علیہ السلام اعلان کرتے ہیں کہ فلاں بندہ ہے،جس میں اللہ آ گیا ہے تو وہ نیچے سو رہا ہوتا ہے اور قطار در قطار آسمان تک لائن لگی ہوتی ہے اْسکو دیکھنے کے لئے۔ اِسکو بولتے ہیں مْرشد کامل اور اِسی کے لئے سلطان صاحب نے فرمایا ہے ” مرشد دا دیدار اے باھو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ھو “۔ اب یہی مّرشد ہے نا رب کو پہنچائے گا نا،رب کو تو یہ ہی مّرشد پہنچائے گا نا۔ اگر رب کو نہ پہنچایا تب بھی دیدار ثواب تو ہے نا۔ دیدار بھی ثواب ہے نا
اِس وقت کیا ہے کہ بے شمار مْرشد ہیں ، پتہ نہیں کتنے ہزاروں ہیں پاکستان کیا ہم نے تو یورپ میں بھی نارؤے وہاں بھی کتنے دیکھے تھے۔ جسطرح نبی کا بیٹا نبی نہیں ہو سکتا، اِسی طرح ولی کا بیٹا ولی بھی نہیں ہوسکتا نہ نبوت وراثت ہے نہ ولایت اگر ولایت وراثت ہوتی،تو نبوت کا حق تھا نا ہر نبی کا بیٹا نبی ہوتا نا۔ یہ بھی نہیں کہتے ہیں ، کہ نبیوں کے بیٹے نبی بھی ہوئے سارے تو نہیں ہوئے نا۔ ولیّوں میں سے کوئی ولی بھی آبھی گیا، نا سارے تو نہیں ہوئے نا۔ اب انھوں نے کیا کیا کہ انھوں نے بیعت کرنا شروع کر دی۔
بیعت کا اختیار صرف ولیّ کو ہے۔ ولیّ کے لیے شرط ہے ولیّ اللہ، اللہ کا دوست، دوست کے لیے شرط ہے
ایک دوسرے کو دیکھا ہوا ہو اور بات چیت ہو۔ نا بات چیت ہے نا ایک ودسرے کو دیکھا ہوا ہے تو پھر یہ دوستی تو نہی ہے نا۔
جس طرح نبی نہیں ہے نبوت کا وعویدار ہے اْسکو کافر کہتے ہو نا اّسکے ماننے والے کو بھی کافر۔ اور ولیّ نہیں ہے ولایت کا دعویٰدار ہے کافر نہیں کہیں گئے اْسکی زبان کی وجہ سے ، لیکن وہ کافر سے کم بھی نہیں ہے۔وہ تو کافر اپنے لئے تھا اپنا نقصان کر کے گیا نا، یہ تو ہزارؤں لوگوں کا نقصان کر گیا ،نا۔ ہم اْس سے بیعت ہوئے کیوں، کیوں بِکے اللہ کے لیے نمازیں تو ہم بغیر بیعت کے بھی پڑھ لیتے ہیں نا۔ ہم تو بغیر بیعت کے حافظ بھی ہو جاتے ہیں نا۔ ہم اْسکے آگے بکے اللہ کے لیے بِکے نا، اللہ تک یہ جسم تو نہیں جاتا ہے نا، اللہ تک تووہ جسم کے اندر کی چیزیں جاتیں ہے نا۔ اللہ کو تو اندر کی گاڑی چلتی ہے نا۔ اب اْس نے اندر کی چیزوں کو ضائع کر دیا نا اب اْسکا ذمہ دار کون ہے وہی ذمہ دار ہے۔ وہ چیزیں جن کے لیے اللہ تعالٰی فرماتا ہے میری ایک مخلوق ہے جسکو میرے سواء کوئی نہیں جانتا۔ وہ جسکے اندر ہے وہ بھی نہیں جانتا اور وہی مخلوق جب نوری ہاتھوں سے دْعا مانگتی ہے اللہ تعالٰی اْنکی دْعا قبول فرماتا ہے۔ اب وہ تبلیغ کا حق کس کو ہے۔72 فرقے ہیں تبلیغ کرتے ہیں ،نا۔تو ایک دوسرے سے لڑتے بھی ہیں تبلیغ کرتے ہیں۔ لڑتے کیوں ہیں آپس میں ،تو بھی اللہ کی راہ دیکھاتا ہے وہ بھی اللہ کی راہ دیکھاتا ہے۔ لڑتے کیوں ہو؟
تبلیغ کے لیے حق اْسکا ہے قرآن مجید خود فرماتا ہے”ھدی اللمتقین” ہدایت ہوں پاکوں کے لیے،اْس کے لیے پہلے پاک ہونا پڑتا ہے۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں وہ اْنکے اوپر لعنت کرتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کافروں کے لیے ہو گا۔ نہیں جس کا نفس عمّارہ ہے وہ ناپاک ہے۔ اگر تیرے اندر کتا ہے تو ناپاک ہے۔ ایک جگہ ہے کہ جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ اِس کتے نے کہا وہ کتا ، میں نہیں، اؤ تو کیوں نہیں۔ وہ کتا تو آدم علیہ السلام کی حفاظت کے لیے جنت میں بنایا گیا تھا۔ آج تک وہ آدمی کی حفاظت کر رہا ہے نا،اْس کا کیا قصور ہے۔اب اگر اْسکو تو گلی کے کونے میں باندھ کر آئے گا تیری حفاظت کیا کرئے گا۔وہ کتا نہیں یہ کتا۔ مجدد صاحب نے فرمایا مکتوبات شریف میں :کہ مقتدی کو چاہیے کہ پہلے اللہ کا ذکر کرئے۔ قرآن اْن لوگوں کے پڑھنے کے قابل نہیں ہے جنکے نفس کتے ہیں۔۔فرمایا ہے کہ پہلے نفس کو پاک کرئے پھر قرآن پڑھے۔ پھر ایک لمحہ فِکریہ سو سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ ابھی تو قرآن رٹتا ہے کتاب سمجھتا ہے۔پھر قرآن تیرے اندر جائے گا ایک ایک آیت کیاوپرتو غور کرئے گا،نا۔ ” ھدی اللمتقین ” جو لوگ پاک ہوئے انھوں نے قرآن سے ہدایت پائی اور کافروں کو بھی مْسلمان بنایا۔
اورجن لوگوں نے پاک ہوئے بغیر قرآن سے ہدایت پانیکی کوشش کری وہی گمراہ ہو ئے ا ورانھوں نے ہی 72 فرقے بنائے۔
اْن لوگوں نے متقیوں نے کافروں کو مْسلمان بنایا۔ یہ تو مْسلما نوں کو بھی کافر کہتے ہیں، کہتے ہیں نا مْسلمانوں کو بھی کافر۔ وہ بھی عالم تھے یہ بھی عالِم ہیں ، اْنکو عالِم ربانیّ کہتے ہیں۔ لوگ اْنکے درباروں کو بھی جا کر چومتے ہیں نا۔ جہاں کوئی فتنہ اْٹھا فورََا پہنچے اْسکو مٹایا۔اور جنکے نفس کتے ہیں اْنکو عالم سْو کہتے ہیں نا اور یہ جتنا بھی فتنہ پھیلا اِنھی عالموں نے پھیلایا نا،بھئی جنکے نفس کتے تھے۔ اْنھوں نے ہی فتنہ پھیلایا نا۔ اْس عالم کی توہین دِین اسلام کی توہین ہے۔اگر تو نے عالم ربانیّ کی توہین کی تو دِین اسلام توہین ہے۔ وہ بنی اسرائیل کے نبیوں کی مانند ہیں۔ اور یہ جو عالِم سْو ہیں اِسکے لیے حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
جاہل عالم سے ڈر اور بچ اصحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا کہ عالم بھی اور جاہل بھی کہ جسکی زبان عالم اور دل سیاہ یعنی جاہل ہواْس سے ڈر ،بچ اور بھاگ تجھے کسی فرقے میں مْبتلا کر دے گا۔
اب اللہ تعالٰی کے ننانوئے نام ہیں سارے ہی جانتے ہیں۔ 98 صفاتی نام ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس،ہزار نبی صفاتی اسماء والے مِل کر بھی اِسم ذات والے کو نہیں پہنچ سکے۔ ایک لاکھ چوبیس،ہزار کدھر، اور حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم ایک کدھر۔ وہ مِل کر بھی حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو نہیں پہنچ سکے۔ کیا راز تھا؟۔ ہر نبی کو صفاتی اِسم مِلا۔ موسٰی علیہ السلام “یا رحمان” کا، عیسٰی علیہ السلام “یا قدوس” سْلیمان علیہ السلام “یا وہابْ” ، داؤد علیہ السلام “یا دوؤدو” باقی نبی اپنے اْولعزم مْرسل کا کلمہ پڑھتے۔ ایک دن موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ اے اللہ دیدار دئے،جواب آیا تاب نہیں ہے۔ کسی میں تاب ہو گی،جواب آیا ایک میرا حبیب اور اْسکی اْمت۔
سْنی، شیعہ کا نہیں کہا اْمت کا کہا ہے۔ سْنی ،شیعہ کو دیدار نہیں ہوتا ہے اْمتی کو ہوتا ہے۔
موسٰی علیہ السلام نے کہا کہ میں اْمتی کے برابر بھی نہیں، جلوہ دے، دیکھی جائے گی۔ جلوہ پڑا موسٰی علیہ السلام بے ہوش ہو گے۔ کیا وجہ ہے کہ موسٰی علیہ السلام اِس دنیا میں کوہ طور میں بے ہوش ہو ئے۔ حضورپاک ﷺ سامنے جا کر مْسکرا رہے ہیں۔ کیا وجہ تھی موسٰی علیہ السلام کے جسم میں “یا رحمانْ” کا صفاتی نور تھا۔ وہ صفاتی نورذات کی تاب نہ لا سکا۔ حضورپاک ﷺ کے جسم مْبارک میں اِسم ذات کا ذاتی نورتھا۔ ذات، ذات کے سامنے مْسکرایا۔ حضور پاک ﷺ کے طْفیل وہ اِسم اِس اْمت کو مِلا تب اِس کو فضیلت ہوئی۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کے دن اْمتوں کی پہچان نور سے ہو گی۔ آپ جو شفاعت کرایں گے۔ اْن ہی کی کرایں جو ، اْمتی ہیں نا۔ یہ”یا رحمانْ” سے چمک رہے ہیں موسٰی علیہ السلام کی اْمت،۔ یہ”یا وْدودو” سے چمک رہیں ہیں دواؤد علیہ السلام کی اْمت،اور یہ جواللہ کے نور سے چمک رہے ہیں یہی حضور پاک ﷺ کی اْمت ہے۔ اگر تم کو فضیلت ہے تو اِسم ذات سے فضیلت ہے۔ بنی اسرائیل کے نبی ترستے رہئے، اوریہاں کے تو ولیّ بھی کہتے ہیں ہم اللہ کا دیدار کرتے ہیں۔
حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا کہ میں نے99 دفعہ اللہ کو دیکھا۔ابراہیم بن اودھم ؒ نے کہا کہ میں 70 مرتبہ رب کا دیدار کیا۔اور سلطان باہوؒ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی دیکھتا ہوں رب مجھے نظر آ جاتا ہے۔ تب ہی ایک حدیث ہے کہ میرے ولیوں پہ بنی اِسرایئل کے نبی بھی رشک کریں گے۔
ایک دن عیسٰی علیہ السلام پْکار اْٹھے اے اللہ مجھے بڑا شوق ہے، بڑی طلب ہے ،تجھے دیکھوں تو سہی۔ باتیں کرتا ہے دکھتا نہیں ہے۔ تو نے موسٰی کا حال نہیں دیکھا تھا، دیکھا ہوا تھا، وہ سہم گے۔ تو پھر دیدار کیسے ہو گاکہ دیدار کے لیے میرے محبوب کا اْمتی بننا ہو گا۔ عیسٰی علیہ السلام نے کہاکہ یہ شرط مجھے منظور ہے۔
اب جب مہدی علیہ السلام آئیں گئے، پھر عیسٰی علیہ السلام دوبارہ آیءں گئے۔
پھر مہدی علیہ السلام سے بیعت ہونگے، اْمتی ہونگے، پھر اْنکو رب کا دیدارہو گا۔
اب اِس کے بغیر تمھاری نمازیں بھی کوئی نہیں ہیں ، تم نمازی کہتے ہو۔حدیث شریف میں ہے کہ سب سے پہلے یومِ محشر میں نماز کا پوچھا جائے گا، کہتے ہو نا۔اْسی حدیث کے آگے لکھا ہوا ہے۔”لا صلواۃ الا بحضور قلب” دل کی حاضری کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی، لکھا ہے۔ جب نماز کا پوچھا ہے تو وہ حدیث کہتی ہے دل کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔ تو جو ہوتی نہیں اْسکا کیا پوچھیں گے؟ بھئی جو ہوتی نہیں اْسکا کیا پوچھیں گے؟ یہ نماز صورت ہے جو ہوتی نہیں ہے۔ جسکو 72 فرقے والے پڑھتے ہیں یہ نماز صورت ہے۔ جسکو سکھ جاسوس بھی پڑھ کے چلا گیا ،پڑھا کے بھی چلا گیا۔
مجدد ؒ صاحب فرماتے ہیں عام آدمی کی نماز صورت، خاصان خدا کی نماز حقیقت۔ فرماتے ہیں ہرآدمی کو چاہئیے کہ نماز حقیقت کی تلاش کرئے۔ یہ بھی فرمایا ہے جب تک حقیقت نہ ملے، نمازصورت کو نہ چھوڑے۔ اب نماز حقیقت کیا اورنماز صورت کیا؟ پتہ ہونا چاہیے نا۔ اللہ تعالٰی نے حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو فرمایا “قْل ھو اللہ احد” کہہ دیجیے اللہ ایک ہے۔ آپ نے آمین کہا۔ حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کہا کہہ دو اللہ ایک ہے۔ جنھوں نے آمین کہا مسلمان جنھوں نے حیل و حْجت کی منافق اور جنھوں نے نہیں مانا کافر۔
اب مسلمان کس کو کہتا ہے۔ کہہ دئے اللہ ایک ہے۔ بلھے شاہؒ فرماتے ہیں “اک نقطے وچ گل مکدی ایہہ”۔
مسلمان اپنے دل کو کہتا ہے کہہ دئے اللہ ایک ہے۔ وہ کہتا ہے ‘گھر وچ آٹا ای کوئی نئیں ‘۔ منافقت کرتا ہے نا۔ پھر کہتا ہے”اللہ الصمد” اللہ بے نیاز ہے، وہ کہتا ہے بیوی بیمار ہے، “لم یلد ولم یولد” وہ کہتا ہے ڈیوٹی سے لیٹ ہو گیا چل۔ کا فروں کی زبان اقرار نہیں کرتی، منافقوں کے دل تصدیق نہیں کرتے اور فاسقوں کے جسم عمل نہیں کرتے۔ بتاؤ تمھارا دل تو منافق تھا نا، تمھارا دل تو منافق تھا نا۔ یہ نماز دکھاوا بھی ہے۔ قرآن فرماتا ہے”اْن نمازیوں کے لیے تباہی بھی ہے اور دکھاوابھی ہے”۔ دکھاوا کیسے ہے، بڑے خشوع و خضوع سے بڑی دیر سے، لگا ہوا ہے۔ لوگ کہتے ہیں، بڑی دیر سے، بڑے خشوع و خضوع سے نماز پڑھرہا ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے نہیں نہ میں اِسکی داڑھی کو دیکھتا ہوں تو نہ میں اِسکے سجدے کو دیکھتا ہوں۔ میں اِسکے قلب اور نیت کو دیکھتا ہوں۔ جس کو دنیا دیکھتی ہے، اْس میں وہ ہوشیار ہے اور جس کو اللہ دیکھتا ہے اْس میں کاروبار ہے۔ یہ نماز دکھاوا ہے، بھلے گھر میں جا کے کْنڈیاں بند کر کے بھی پڑھو یہ نماز دکھاوا ہی ہے۔یہ نماز صورت ہے۔ اب وہ نماز حقیقت کیا ہے؟۔
نماز حقیقت یہ تمھارا پہلا رْکن ہے۔ پہلا رْکن کلمہ، کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہو گیا۔ دودھ میں آگیا، دودھ ہو گیا نا، تو دودھ کا رگڑا لگا تو مومن بنا نا۔ دودھ کا رگڑا لگا تو مکھن بنتا ہے نا۔ ایک دفعہ کلمہ پڑھا تو مسلمان ہو گیا نا تو بار بار تکرار سے اْسکے نور سے پھر تو مومن ہوا نا۔ یہ تیرا پہلا رْکن ہے۔ یہ تیرے قرآن کا پہلا لفظ ہے۔ “الم” تو نے کہا حروف مْقطعات ہے، آگے چلو، آگے کیوں چلیں اِس سے پوچھ یہ پہلے کھڑا ہوا ہے یہ کیا کہتا ہے۔ سخی سلطان باہوؒ فرماتے ہیں میں کوئی ظاہری مدرسے میں نہیں پڑھا۔ میں نے صرف قرآن کا پہلا لفظ لے لیا کہ اِس میں کچھ ہو گا، نا۔ الف سے اللہ اللہ ہی کرتا رہا۔ فرماتے ہیں کہ اللہ اللہ کرنے سے ہی میرا سینہ منور ہو گیا۔ فرماتے ہیں جب سینہ منور ہو گیا تو حضورپاک ﷺ نے چمکتا ہوا سینہ دیکھا۔ سینے سے سینہ لگایا، سارے علم مجھے خودبخود ہی آگئے۔ جو علم مدرسوں میں سے مجھے حاصل نہیں ہو سکتے تھے وہ سینے مٍلانے سے خود بخود حاصل ہو گئے۔ “الف” سے اللہ اللہ کر اگر اسکی جلالیت سے ڈرتا ہے تو “ل” سے” لا اٍلاالہ اللہ ” ہی پڑھتا رہ۔ اگر اسکی بھی توفیق نہیں ہے تو “م” سے “مْحمد رسول اللہ ﷺ ہی پڑھتا رہ۔اِسی سے تو پاک ہو جائے گا۔ جب پاک ہو جائے گا پھر آگے چلنا نا۔ “ھدی اللمتقین” پھر کتاب تجھے ہدایت دے گی نا ورنہ تجھے گمراہ کر دے گی۔ اور اْسی قرآن نے ان کو ہدایت دی اور اْن کو گمراہ کر دیا۔
یہ تمھاری پہلی سْنت بھی ہے۔ حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم غار حرّا میں کیا کرتے، نفل تو کوئی نہیں پڑھے۔ نمازیں تھیں کوئی نہیں اْس وقت ذکر اللہ ہی کرتے۔ ہر وقت ذکر اللہ ہی کرتے۔ غارئے حرّا میں جا کر مستی پیدا ہوتی غارئے حرّا میں چلے جاتے۔ پھر جب آپ نے مسلمان بنائے، وہ جو نو مسلمان تھے، تو نمازیں اْس وقت بھی کوئی نہیں تھیں ذکر اللہ ہی تھا۔ وہ بھی ذکر اللہ کرتے رہے۔ ذکر اللہ سے اْنکے سینے منور ہو گئے۔پھر نمازیں اْتریں، پھر نمازیں حلقوں میں نہیں اٹکیں سیدھی سینوں میں گئی۔
اب قرآن میں ایک آیت ہے۔ اْٹھتے، بیٹھتے، حتیٰ کہ لیٹے میرا ذکرکر، خریدو فروخت میں بھی اِس سے غافل نہ رہ۔ آدمی سوچتا ہے یہ اللہ نے کیا کِیا کہ میرے ساتھ پیٹ بھی لگا دیا بیوی بچے بھی لگا دیے کہتا ہے، خریدو فروخت میں بھی کر، سوتے میں بھی کر، اْٹھتے، بیٹھتے کر۔ یہ ہی سوچتا ہے نا۔ اؤ تجھے نہیں کہا، وہ جو تیرے اندر انسان رہتا ہے اْسکو کہا۔ جب تیرا انسان جاگ اٹھے گا اْسکو کہا او تیرے بچے تو نہیں ہیں نا، تجھے نیند تو نہیں آتی ہے نا، تو اللہ اللہ کر تجھے کہا تو بچوں کی پرورش کا کر۔ تیرا انسان جاگ اْٹھے گا پھر دست کار میں دل یار میں۔ پھر تو کوشش کرئے گا میں اخبار رسالہ پڑھتا رہوں اللہ اللہ ہوتی رہے۔ گاڑی چلاتا رہوں اللہ اللہ ہوتی رہے، کامیابی ہو جائے گی۔ پھر کوشش کرئے گا میں نمازپڑھتا رہوں اور اللہ اللہ ہوتی رہے۔ اْس وقت زبان کہے گی کہہ دے اللہ ایک ہے، دل کہے گا اللہ ہی اللہ۔ “اللہ الصمد” اللہ ہی اللہ۔”لم یلد ولم یولد” دل کہے گا اللہ ہی اللہ۔
اب زبان اقرار کر رہی ہے دل تصدیق کر رہا ہے نا۔ اِسکو بولتے ہیں اقرار با لسّان، تصدیق بالقلب۔
زبان دلیل سے منوا رہی ہے کہ کہہ دے کہ اللہ ایک ہے اور دل بغیر دلیل کے مان رہا ہے کہ اللہ ہی اللہ۔
زبان کا تصرف ہے، یہاں بولتے ہو اوربی بی سی والے سنتے ہیں۔ اور دل کا تصرف ہے یہاں گونجتا ہے عرش مْعلٰی والے سْنتے ہیں تمھاری نماز کو یہ دل عرش مْعلٰی میں لے کے جائے گا۔ ایک دن حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں جب نماز پڑھتا ہوں تو مجھے وسوسے آتے ہیں آپ نے کہا تمھیں دو طرح کا ثواب مِل رہا ہے، ایک نماز پڑھنے کا اور ایک جہاد کرنے کا۔جب تمھارے اندر وسوسے آتے ہیں۔ اور جو تیرے اندر اللہ اللہ ہو رہی ہے وہ اْنکو باہر نکالتی ہے نا، پھر وہ وسوسے آتے ہیں پھر اللہ اللہ انکو باہر نکالتی ہے، تو تیرے اندر لڑائی شروع ہو گی نا وہ اللہ اور شیطان کی لڑائی شروع ہو گی نا،تو یہ جہاد ہے نا۔ اگر تیرے اندر وسوسے آئیں تو کوئی نکالے ہی نہیں تو دل میں بیٹھ گئے۔ اسکا مطلب ہے تیرا دل اْسکے ساتھ شامل ہے نا، تو پھر یہ جہاد تو نہیں ہے یہ مْنافقت ہے نا۔
کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جو آدمی کی سمجھ میں نہیں آتیں ہیں، عوام کی سمجھ میں آجاتیں ہیں۔ ہمارے علماء کی سمجھ میں نہیں آتیں، حقیقت ہے۔ پتہ نہیں کیا راز ہے؟ ٹھیک ہے آگے بھی فتوے بہت سارے لگے ہوئے ہیں ، ایک اور لگ گیا تو کیا ہے۔
اب بات یہ ہے کہ یہ جو تمھارا جسم ہے، یہ اوپر نہیں تھاآگے بھی نہیں ہو گا۔ آگے جو تم کو جسم مِلیں گے، وہ تو دوسرے ملیں گے نا، نہ جلیں گے، نہ مریں گے، نہ بوڑھے ہونگے۔ یہ تو مانتے ہو نا۔ جب اِس جسم کو نہ پہلے سے تعلق نہ آخر سے تعلق، پھر اِسکو نماز پڑھنے کی کیا ضرورت۔ بھئی اِسکو تو یہی مٹی میں چلے جانا ہے پھر اِسکو نماز پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اِسکو ضرورت نہیں ہے، قطعً ضرورت نہیں ہے۔ اِسکے اندروہ جو روحیں چمٹیں ہوئیں ہیں اْنکو ضرورت ہے نا۔ جسطرح ماں بیٹے کو اْٹھاتی ،بیٹھاتی ہے۔ اِسطرح یہ جسم اْن روحوں کو رکوع، سجود کرواتا ہے۔ وہ روحیں اس جسم کی محتاج ہیں، جسطرح وہ بیٹا اْس ماں کا محتاج ہے۔ جب بیٹا جوان ہو جاتا ہے تو ماں اْسکی محتاج ہو جاتی ہے نا۔ جب تمھاری روح اندر سے جوان ہو جاتی ہے یہ جسم اْسکا محتاج ہو جاتا ہے نا۔ پھر کیوں محتاج ہو جاتا ہے، جب وہ روح منور ہو گی ، تو پھر یہ جسم بھی منور ہوا نا۔ تو پھر اِس جسم کو قبر میں کیڑئے نہیں کھائیں گے نا۔ تو پھر اِس جسم کی لوگ تعظیم کریں گے، چومیں گے نا۔ اصل چیز تو وہ ہے جو اندر ہے،اْس کو اوپر جانا ہے نا۔ اب جب وہ جوان ہو گئی، تو وہ اْسکا خانہ کبعہ تو بیت المعمورمیں ہے نا۔ تو پھر وہ وہاں جا کر نمازیں پڑھے گی نا، جہاں نبیوں اور ولیوں کی روحیں نمازیں پڑتیں ہیں۔۔تو پھر تو بھلے سوتا رہے، تو بھلے مر جائے، اْسکی نماز بیت المعمور میں ہوتی رہے گئی، اور قیامت تک ہوتی رہے گئی۔
یہ ایک راز ہے اگر تم نے اْس انسان کو ایک دفعہ جگا لیا تو۔ جتنے بھی موجود ہیں سب کے اندر سولہ انسان ہے، ایک نہیں ہیں سولہ ہیں۔
غوث پاک ؒ کی ایک وقت میں 9 آدمیوں نے دعوت پکائی 9 کے گھر جا کر کھانا کھایا نا۔ جسم مْبارک تو مسجد میں مؤذن کے پاس تھا نا، جسم کے اندر کی چیزیں اْدھر جا کر کھانا کھا رہیں تھیں نا۔ بھئی جو کھانا ساتھ کھا سکتیں ہیں وہ اْٹھی بھی ہو گی، بیٹھی بھی ہو گی، باتیں بھی کری ہوں گی نا۔ تو نماز میں پھر یہ ہی کچھ ہے نا۔ ہو سکتا ہے اْنکی نماز خانہ کبعہ میں ہوتی ہو۔
وہ جو کہتے ہیں کہ درویش کی نماز عرش مْعلٰی میں ہوتی ہے، کہتے ہو نا۔ ہمارے عْلماء بہت ہی پریشان ہوتے ہیں میں دیوار سے اوپر نہیں جاتا یہ عرش مْعلٰی میں کیسے جاتا ہے۔ یہ جسم عرش مْعلٰی میں نہیں جاتا ہے۔ وہ جسم کے اندر کی چیزیں عرش مْعلٰی میں جاتیں ہیں نا۔
اب ہم کوتعلیم دی جاتی ہے حدیث کے مطابق کہ جس میں حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے محبت عشق نہیں اللہ سے عشق نہیں اْسکا اِیمان ہی نہیں۔ بھئی دؤائی کا پتہ بتایا جاتا ہے نا، دؤائی تو نہیں دی جاتی ہے نا۔ پتہ بتا دیا عشق، عشق، عشق ہے کیا ،عشق آتا کیسے ہے۔ پتا بتا دیتے ہیں دؤائی دیتے کوئی نہی ہیں۔ وہ جیسے ہیں ویسے ہی ہیں ہم ، اندر سے ویسے ہی ہیں نا پھر۔ وہ کیسے عشق آتا ہے۔
اب اللہ کا جو دین ہے وہ کچھ اور ہے۔ یہ تم کو بہت بڑا دھوکہ ہے تم کہتے ہو یہ قرآن اللہ کا دین ہے ، کہتے ہو نا۔ توریت میں کچھ اور دین ہے، زبور میں کچھ اور دین ہے، انجیل میں کچھ اور دین ہے، قرآن میں کچھ اور دین ہے، توپھر اْسکا اپنا دین کیا ہے۔ جو اْسکے دین میں چلا جاتا ہے اْسکو علماء کہتے ہیں بے دین ہے۔
سہلی سرکارؒ ، سہلی سرکار مظفرآباد میں نماز بھی نہیں پڑھتے ، نماز وہاں جو ہوتی تھی۔ داڑھی بھی کوئی نہیں۔ وہ فوت ہو گئے، علماء نے کہا اِنکی نماز نہی پڑھا یں گے یہ بے دین تھا۔ بے دین تھا، وہ اللہ کے دین میں تھا نا۔ یہ بے دین تھا ،اْسکی داڑھی نہیں تھی۔ اْنکے ایک خلیفہ نے گھبرا کر دوبارہ سر سے وہ کفن اْٹھایا تو دیکھا داڑھی آچکی تھی۔ پھر اْنھوں نے کَیا، کِیا کہ گرم پانی سے دھویاکہ کہیں داڑہی چپکا تو نہی دی لیکن وہ داڑھی ہی تھی۔
اب اللہ کا دین کیا ہے۔ یہ جو درویش ہیں نا یہ اللہ کے دین کی طرف جاتے ہیں نا۔بھئی قران کا دین تو شہروں میں ہے نا، مسجدوں میں ہے نا، بھئی قران کا دین مسجد میں ہے نا، شہروں میں ہے نا علماء کے پاس ہے نا۔ تو جنگلوں میں پھر کون سا دین ہے۔اؤ تمھارے غوث پاکؒ بھی گیئے،۔ تمھارے خواجہؒ صاحب بھی گے، وہ امام بری ؒ سرکار بھی گے، داتا ؒ صاحب بھی اْدھر گے، توپھر اللہ کے دین کے لیے گئے نا۔ تو پھر اللہ کا دین کیا ہے۔
اور یقین کرؤ اْسکے دین میں جانے کے لیے تمھارے اوپر بے دینی کا فتویٰ ضرور لگے گا
جب تمھارے دل میں اللہ اللہ شروع ہو جائے گی۔ کوئی بھی چیز دل میں بس جائے اْس سے محبت ہو جاتی ہے، کوئی بھی چیز۔ یہ جو کہتے ہیں ہم اللہ رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں ، مکار ہیں۔ محبت کا تعلق زبان سے نہیں ہے دل سے ہے۔ دل میں دنیا اورزبان سے کہتے اللہ رسول ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔ جب تمھارے دل میں اللہ اللہ شروع ہو جائے گی۔ تمھارے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہو جائے گی۔ پھر اللہ کی محبت پیدا ہو جائے گی۔ اللہ میں یہ ایک بڑا ہے کہ وہ کسی کا احسان اپنے اوپر لیتا نہیں ہے اْسکے لیے ایک روپیہ خرچ کردو، دس روپے لْوٹا دیتا ہے نا۔ بھئی احسان مانے تو پھر کیوں واپس لوٹائے۔ ایک نیکی کرؤ دس نیکیوں کا ثواب دے دیتا ہے۔ تھوڑی سی محبت کرؤ، دس گنّا زیادہ محبت کرتا ہے۔ جس سے محبت کرتا ہے اْسے دیکھتا بھی ہے ،پھر سرسری نظر سے نہیں دیکھتا بڑے پیار سے دیکھتا ہے۔ جس دن اللہ کی نظریں اْس بندے پر پڑگئیں، اب محبت ختم ہو گئی، اب عشق ہو گیا۔ پھر میں تیرا اور تو میرا۔
اللہ کا دین عشق ہے۔اْس نے سب سے پہلے جو کیا ہے،وہ عشق ہی کیا ہے اپنے محبوب ﷺ سے۔
اْس دن کے بعد وہ خود عشق ہے، خود عاشق ہے، خود معشوق ہے۔
بھئی جب تو اْسکے دین میں چلا گیا عاشق ہو گیا، تو بے دین تو ہو ہی گیا نا۔
اب وہ جو اللہ اللہ ہے اندر آتا کیسے ہے۔ اب اْس دؤائی کا پتہ بتائیں ناں کہ وہ اندر کیسے آتی ہے، عشق محبت کیسے اندر آتا ہے۔ روزانہ کاغذ کے اوپر کالی پنسل سے 66 مرتبہ اللہ لکھو۔ صبح کی نماز کے بعد بہت اچھا وقت ہے ورنہ جب بھی آپکو وقت میسر آئے، کوئی قید نہیں ہے۔ اگر فارغ ہو تو دن میں کئی دفعہ اللہ لِکھو۔ جب بھی لِکھو پڑے پیار سے لِکھو۔ کبھی کبھی وہ دنیا کو دیکھتا ہے نا، کیا خبر وہ ابھی دیکھ رہا ہو۔ ایک دن آئے گا آپ جو کاغذ پر لکھتے تھے، وہ تمھاری آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جائے گا۔ وہ 66 ایک عمل بن جائے گا۔جب آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جائے پھر لکھنا بند کر دیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ مسمیرزم ہے۔ واقعی ہی یہ مسمیززم نہیں، مسمیرزم اِسی سے نکلا ہوا ہے۔ مسمیرزم والے کیا کرتے ہیں سورج اور شمع کی روشنی کو اپنی آنکھوں میں لاتے ہیں۔ اْس روشنی کی طاقت سے شیشے کے گلاس پر نظر ڈالتے ہیں، وہ کریک ہو جاتا ہے۔ لیکن انسان کے دل میں ایک لاکھ، اسّی ہزار جالیں ہیں۔ وہ شمع کی یا سورج کی روشنی اْن جالوں کو توڑ نہیں سکتی۔ جب وہ اللہ آنکھوں میں آتا ہے تو اللہ کو آنکھوں سے، توجہ سے، دل کی اوپر اْتارتے ہیں۔ تو پھر وہ اُن جالوں کو توڑتا تاڑتا دل کے اوپر جا کے بیٹھ جاتا ہے۔ جب دل کے اوپر جا کے بیٹھ جاتا ہے، یہ پولیس کی مہر، پولیس والا، اللہ لکھا گیا، اللہ والا۔ اْس وقت تمھارے دل کی ڈھرکن تیز ہو جائے گی۔ ٹک ٹک، ٹک ٹک، اَس ٹک ٹک کے ساتھ پھر اللہ ہو مِلائیں۔ ایک کے ساتھ اللہ، ایک کے ساتھ ہو۔ گھڑی گھڑی اسطرح کریں گے، اندر وہ رگڑا لگنا شروع ہو جائے گا۔ اب تجربہ کریں کہ میں اندر نور بن رہا ہے یا نہیں بن رہا۔ وہ کالا سا تھا پھر اْس نور سے وہ سفید ہو جائے گا۔ پھر ایک دن وہ سورج کی طرح چمک رہا ہو گا۔ اْس وقت تو بے خوف ہو جانا۔ قبر میں بھی چلے جانا بڑی شان و شوکت سے جانا،مْنکر نکیر سے نہیں ڈرنا۔ آپ تو ہم کو ڈراتے ہیں نا اؤ پتہ نہیں کیا کیا پوچھیں گے۔ ہمیں تو یہ مہر لگ گئی ہے اب کیا پوچھیں گئے۔ قبر میں چلا گیا، آ گئے مْنکر نکیر۔ سب سے پہلا سوال بتا ترا رب کون ہے،خاموش جواب نہیں دینا، ستانا اْنکو۔ دوبارہ پھر پوچھیں گئے بتاتا کیوں نہیں تیرا رب کون ہے، خاموش، تیسری دفعہ پھرپوچھیں گے، گونگا تو نہیں ہے بتا ترا رب کون ہے، کفن پیچھے ہٹانا دیکھ لے اللہ چمک رہا ہے۔ یقین کرؤں اْنکو جرات نہیں ہو گی کہ تم سے دوسرا سوال پوچھیں، اے بند ئے خدا آرام سے سو جا تو جان تیرا رب جانے۔ ہمیں تو شرم آتا ہے تجھ سے کیا پوچھیں السلام علیکْم ہم جا رہے ہیں۔
یہ لوگ ہیں۔ یہ اسم ذات سب سے پہلے حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عطاء ہوا ہے۔ اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں عطاء ہوا۔ حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو عطاء ہوا ہے حضورپاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ نو صحابہ اکرام کو عطاء ہوا ہے۔ یہ چیشتی، نقشبندی، قادری، سہروردی اِس قسم کے نو سلسلے تھے۔ یہ اْنکو عطاء ہوا ہے۔ اْن سے پھر یہ بارہ اماموں کو عطاء ہوا ہے، جو وقت کے غوث تھے۔ پھر بارہ اماموں سے لے کے غوث پاکؒ کو دے دیا،تب آپ غوث اعظمؒ کہلائے۔ اِس وقت اسم ذات غوث پاک کے پاس ہے۔ اب تمھارے اندر اسم ذات کسی بھی طریقے آجائے، کسی شخص کے ذریعے آجائے خواب کے ذریعے آجائے، تم غوث پاک ؒ کے مْریدوں میں چلے جاتے ہو۔ اّنکے زمانے م?ں جن کو اسم ذات مِلا وہ اْنکے اصلی مْرید، اْنکے زمانے کے بعد کسی بھی طریقے سے آپکو اسم ذات مٍلا وہ اْنکے داخلی مْرید، وہ اْنکا داخلی مْرید ہو جاتا ہے۔
تب غوث پاک ؒ نے فرمایااے میرے مْرید میرا ہاتھ بہت بڑا ہے، میرا ہاتھ بہت بڑا ہے۔ آپ نے فرمایا 70 مرتبہ اللہ سے وعدہ لیا کہ میرا مْرید اِیمان کے بغیر نہیں جائے گا۔ ” لا خوفْ ” ہو جا ، بے خوف ہو جا، تْو اِیمان کے بغیر نہیں جائے گا۔پھر فرمایا میرا مْرید کون ہو گا؟۔ میرا مْرید وہی ہو گا، جو اللہ کا ذکر کرنے والا ہو گا۔ “بہشت الاسرار” میں فرمایا جو ذکر کرنے والا ہو گا نا وہ میرا مْرید ہو گا ،نا۔ تو میں ذاکر اْسی کو مانتا ہوں نا جسکا دل اللہ اللہ کرئے نا، ورنہ زبانی طور پر طوطا بھی اللہ اللہ کر سکتا ہے نا۔ اگر طوطا اللہ اللہ کرئے تو کیا وہ غوث پاک ؒ کا مْرید ہو جائے گا۔ خود اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ جس کا مرتے وقت زبان پر کلمہ ہو گا، بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائے گا۔ لوگ کہتے ہیں ہم کلمہ پڑھ لیں گئے، ہم کو آتا ہے۔یہ نہیں پتہ کہ مرنے سے پہلے ہی تیری زبان بند ہو جائے گی۔ وہاں یہ شرط ہے کلمہ بھی پڑھ رہا ہو اور مر بھی رہا ہو۔ ہزارؤں میں کسی ایک کا سْنتے ہیں کہ کلمہ پڑھ رہا تھا اور مر گیا۔
ایک بزرگ گزرئے ہیں حضرت امام رازیؒ ۔ وہ اِتنا کلمے کا تکرار کرتے کہ وہ سوتے رہتے اْنکی زبان کلمہ پڑھتی رہتی، اتنا لیکن جب وہ باتوں میں لگتے نا، تو زبان اْدھر لگ جاتی نا۔ موت کا وقت آگیا شیطان نے سوچا کہ کلمہ پڑھتے پڑھتے جایءں گے اِنکا حساب کتاب ہو گا نہیں ہیں تو یہ جنتی ہیں۔ لیکن چلو اِنکواْلجھا ہی دیں کوئی حساب کتاب تو ہو نا، جا کر پوچھتا ہے بتاؤں تم نے رب کو کیوں مانا۔ ایک دلیل دی نہیں غلط ہے۔ انھوں نے 99 دلیلیں دیں۔ شیطان کا مقصد ہے کہ دلیلیلوں میں ہی اِنکی جان نکل جائے۔ ادھر حضرت نجمام الدین کْبرؒ ا دیکھ رہے تھے۔ ایک دفعہ حضرت امام رازیؒ اْنکی محفل میں گئے تھے۔ کوئی بات اْنکو پسند نہ آئی مڑ کر نہ گئے، اب انھوں نے کہا کہ ایک دفعہ آیا تھا اْسی کی لاج رکھ لیتے ہیں۔ دور سے پانی کا چھینٹا مارا اور کہا اے نادان تو کہہ میں نے بغیر دلیل کے رب کو مانا، کلمہ پڑھ، اور کلمہ پڑھا روح پروازکر گی۔ تین دفعہ کلمہ پڑھا روح پرواز کر گئی۔ شیطان نے اْن لوگوں کو بھی نہیں چھوڑا، عام آدمی کو کیسے کہہ سکتا ہے۔ پھرغوث پاکؒ نے کیسے دعویٰ کیا کہ میرا مْرید اِیمان کے بغیر نہیں جائے گا۔
شیطان کا تصرف زبان پہ ہو سکتا ہے، اِس زبان کا تعلق اِس ناسوت سے ہے۔ اِس دل پر نہیں ہو سکتا ،اِس دل کا تعلق ملکوت سے ہے، وہاں شیطان کا دخل نہی ہے۔ جب ملکوت سے اجازت ہو جائے گی، تیرے دل کو اللہ اللہ کرنے کی تو پھر شیطان بے بس ہو جائے گا۔ اْس وقت تو مر بھی رہا تھا اللہ اللہ کر بھی رہا تھا، حتیٰ کہ تو مر بھی گیا اور ڈیڑھ سکینڈ تک اللہ اللہ کرتا رہا۔ وہاں زبان کہا ہے؟، دل کی زبان کو اِس زبان پر 70 گْنا زیادہ فضیلت ہے۔
اب بغیر حساب کتاب کے کیسے جایءں گئے مْنکر نکیر تو اْسکو چھوڑ کے چلے گئے۔ پھر ایک اور فرشتہ آئے گا اْسکا نام امان ہے۔ اْس نے اْس روح کو لکھے کے مطابق اوپر لے کر جانا ہے۔ مْنکر نکیر نے اْسکے کفن کے اوپر لکھنا ہے یہ پاس ہو گیا یا فیل ہو گیا۔ اب جب دیکھتے ہیں لکھا ہی کچھ نہیں ، روح کو نکالتے ہیں۔ پھر وہ اللہ کے نور سے چمک رہی ہے۔ اْسکو رضوان کے پاس لے جاتے ہیں اِسکو بہشت میں داخل کر۔ وہ کہتا ہے اِس کا حساب کتاب لاؤں، وہ کہتا ہے یہ چمک دمک ہی اِسکا حساب کتاب ہے۔ اِس طریقے سے وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں جائے گا۔
رات سونے لگیں تو انگلی کو قلم خیال کریں دل کے اوپر اللہ اللہ لکھتے لکھتے سو جایءں۔ اِسی میں نیند آ جائے گی، کیونکہ کہ سوتے وقت جو نیت ہوتی ہے خواب میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے۔ اللہ ہو پڑھتے پڑھتے سو گئیاور خواب میں بھی اللہ ہو کرتے رہے۔ صبح اْٹھیں وضو ہے یا نہیں پرواہ نہیں دل کا وضو پانی سے نہیں ہوتا۔ سارا دن پانی میں پڑیں رہیں پانی تو دل میں جائے گا نہیں تو ، پھروضو کیسے ہو گا؟ جب وہ نور بنئے گا تمھارے دل میں ، وہ دل کو دھوئے گا اْسکو بولتے ہیں نا وضو کر لے شوق شرابا دا۔
کام کاج میں جا رہئے ہیں آفس میں جا رہئے ہیں ذکر خفی کرتے رہیں۔ جب تک دل کی ڈھڑکن سے نہی مِلتا اْسکو ذکر خفی کہتے ہیں۔ جب یہ دل کی ڈھڑکنیں اللہ اللہ پْکارنا شروع کر دیتیں ہیں اْسکو ذکر قلبی کہتے ہیں یہ تمھارا طریقت میں پہلا قدم ہے۔ طریقت کا تعلق اِس دل سے ہے۔ پھرجب یہاں سے گاڑی چلتی ہے اللہ اللہ پھر اللہ تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر اْسکو حقیقت بولتے ہیں نا۔ حقیقت کا تعلق اِن نظروں سے ہے۔ تو پھر جب اللہ تعالٰی اْسکو کچھ عنایت کر دیتا ہے، تو وہ معرفت ہے نا۔ یہ چاروں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ اِس میں یہ ہے کہ تم بھی عالم ہو، تمھیں میری بات بْری لگئے گی۔ یقین کرؤ تم لوگوں نے ہم کو روکا ہوا ہے اللہ کی راہ سے۔ تم کہتے ہو کہ طریقت بھی شریعت میں ہے، حقیقت بھی شریعت میں ہے، معرفت بھی شریعت میں ہے۔ روک لیا نا ہم کو یہاں ہی شریعت نے روک لیا نا۔
ہم نارؤئے میں گئے وہاں ایک تختی لگی ہوئی ہے لکھا ہوا ہے اِسکے آگے کوئی دنیا نہیں ہے۔ اگر دنیا کا کوئی مہم جو ہو گا تو وہی جا کے ساکن ہو جائے گا، نا۔ بھئی آگے دنیا ہی نہیں میں کیا کرؤ۔ جب تم نے کہا کہ شریعت سے آگے کچھ نہیں تو اگر کوئی اللہ کا طالب ہو گا تو شریعت میں پھنس جائے گا، اور پھنسے ہوئے ہیں نا لوگ۔ کہو نا زبان بھی اللہ اللہ کرتی ہے، دل بھی اللہ اللہ کرتا ہے، آنکھیں بھی اللہ کو دیکھتیں ہیں یہ کیوں نہیں کہتے۔
اب دوسرا میں تم کو مثال دیتا ہوں تم حنفی ہو۔ پاکستان میں سبھی حنفی ہیں زیادہ۔ حنفی پوری شریعت سِکھا دیتا ہے، سکھا دیتا ہے حافظ بھی بنا دیتا ہے حنفی۔ سارے مسلئے مسائل آپکو سکھا دیتا ہے قرآن بتا دیتا ہے۔ تو پھر آپ وہ چیشتی یا قادری کیوں ہیں۔ بھئی وہی نمازیں ہیں۔ تو پھر وہ چیشتی، قادری کیوں ہیں۔ آپ حنفی ہیں ، حنفی نے آپ کو زبان کو اللہ اللہ سکھایا۔ آپ قادری بنیں ہیں تو انھوں نے آپ کے دلوں کو اللہ اللہ سکھایا ہے نا۔ بھئی پہلے زمانے میں کوئی آتا کہتا میں نقشبندی ہوں لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اسکے دل پر نقش ہو گا نا اللہ۔ نقشبندی تو اْسکو بولتے ہیں ، تعظیماً کھڑے ہو جاتے ہیں نا۔ اب تم کہوں میں نقشبندی ہوں، چیشتی بھی ہوں ، قادری بھی ہوں، سہروردی بھی ہوں، کوئی کھڑا نہیں ہوتا کہ اندرسے تو خالی ہے نا۔ یہ طریقت ہے جسکا تعلق اس دل سے ہے۔ اور اِسی طریقت کے لیے تم کہتے ہو اسلام میں رہبا نیت نہی ہے، کہتے ہو نا۔ شہرؤں میں رہو یہیں حلوئے پراٹھے کھاؤ بس۔اْدھر تمھارے اکابر جنگلوں میں کیوں گئے وہ کیا اسلام میں نہی تھے؟۔ وہ نفسوں کو پاک کرنے کے لیے گے۔اور جب اْنکے نفس پاکیزہ ہو گے، پھر تمھارے لیے ہدایت بن کے آ گے۔ اِس کے لیے یہ جو رمضان مبارک ہے یہ تمھارے نفسوں کے لیے ہے۔ کہ نفسوں کی اصلاح کرؤ اگر بیس دن میں نہی ہوتے تو دس دن اور اعتکاف میں بیٹھ جاؤ۔ یہ تمھارے نفسوں کی اصلاح کے لیے ہے۔
اب بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اسم اللہ جلالی ہے، کیوں نہیں کرتے سخت جلالی ہے، جلال دیتا ہے۔ لوگ پاگل ہو جاتے ہیں۔ وہ حوالہ دیتے ہیں ایک پرندے کا، پرندہ ققنس تھا۔ ایک درویش جنگل میں گیا وہ اللہ ہو کرتا رہا۔ وہ چلا گیا۔ اْس ققنس نے اللہ ہو سیکھ لیا۔ وہ بھی اللہ ہو کرنا شروع کر دیا۔ وہ طوطے کی طرح ہے ققنس۔ اب اْس نے دیکھا کہ اللہ ہو سے میرے اندر گرمی پیدا ہو گی ہے۔ اتنی گرمی ہوئی اْس نے سمجھا اب میں جل جاؤں گا۔ چھوٹی چھوٹی لکڑیاں لیں اکھٹی کریں آگ لگے انکو لگے میں تو بچ جاؤ گا نا۔ جب آگ لگی وہ بھی جل گیا اور لکڑیاں بھی جل گیں۔ اْس کی راکھ سے پھر ایک انڈا بنا ،اْس سے بچہ نکلا اْس نے بھی اللہ ہو کرنا شروع کر دیا، وہ بھی جل گیا۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے لوگ کہتے ہیں کہ ققنس جل جاتا ہے اللہ ہو سے بھئی اس نے اللہ ہو سنا تھا نا تب جلا نہ اگر محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم سنتا تو کیسے جلتا۔ اگر ذکر سے گرمی لگے تو درود شریف پڑھیں وہ اِسکو ٹھنڈا کر دے گا ڈرتے کیوں ہیں۔ صحابہ اکرام فرماتے ہیں ہم پر جب مصیبت آتی ہم درود شریف پڑھتے اَس سے پہلے کیا کرتے24 گھنٹے اللہ کا ذ کر کرتے جب گرمی ہوتی یا ذکر کم ہو جاتا۔ اگر بند ہو جاتا تو دروشریف پڑھتے وہ اِسکو دوبارہ جاری کر دیتا یہ اسکا طریقہ ہے۔ اب یہ ہے کہ اِس کی اجازت ہوتی ہے۔ اجازت کا مقصد کیا ہے؟
آپ یہاں تہجد پڑھتے رہیں شیطان ایک کونے پہ کھڑا ہنستارہتا ہے تھکتا رہے، تیرا دل تو میرے ہاتھ میں ہے نا جب جی چاہوں گا موڑ لوں گا اور تمھیں ایک دن شکایت ہو گی میں بڑا تہجد گزار تھا مجھے کیا ہو گیا میں فرض نماز نہیں پڑھ سکتا تو شیطان نے دل موڑ دیا نا۔
بایزید بسطامی جنگل میں چلے گے جوانی کے ایام میں جب باقی ورد وظائف کرتے تو شیطان دور سے دیکھتا جب وہ اللہ ہو کی ضربیں لگاتے تو قریب ان کو خوب ستاتا ،تا کہ یہ اللہ ہو ان کے اندر نہ جائے ایک دن ان کو غصہ آیا ڈنڈہ لیا اور اْسکے پیچھے بھاگے وہ بھی بڑا چا لاک تھا وہ آہستہ آہستہ بھاگے وہ آگے وہ پیچھے پیچھے تیز دوڑتے وہ نا ڈنڈا کھائے کافی دور تک چلے گے پسینہ پسینہ ہو گے۔ آواز آئی کہ اے بایزید یہ ڈنڈوں سے نہیں مرتا یہ اللہ کے نور سے جلتا ہے تو اتنا ذکر کر اتنا ذکر کر کہ تو نور اللہ نور ہو جائے۔ جب بایزیدبسطامی ؒ نور العلیٰ نور ہو گے تو شہر بسطام سے جادوگر ہی چلے گے اب ہمارا عمل اثر نہیں کرتا اْسکو پتہ ہے اللہ اللہ کرنے سے ہو سکتا ہے اسکے دل پر اللہ نقش ہو جائے۔ اور یہ ہے قرآن مجید فرماتا ہے کچھ لوگ ایسے ہیں جنکے دلوں پر ایمان لکھ دیا۔
خواجہ بہاؤالدین نقشبندی ؒ لوگوں کے دلوں پر لفظ اللہ نقش کر دیتے تھے۔ تب ہی آپ کو نقش بندی کہتے ہیں نا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جنکے دلوں پر حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک آجاتا ہے کیونکہ وہ خدا بھی نہیں تو جدا بھی نہیں۔ جب روضہ مبارک آجاتا ہے تو پھر وہ کہیں بھی ہے مدینے میں ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ خانہ کبعہ میں نماز ایک لاکھ کا درجہ رکھتی ہیں۔ مدینے شریف میں پچاس ہزار کا درجہ رکھتی ہے، کہتے ہیں نا۔ وہ جس میں خانہ کعبہ بستا ہے اْس کو لاکھ کا ثواب ملتا ہے نا۔ تو جس میں مدینہ شریف آتا ہے نا اْسکو پچاس ہزار کا ثواب ملتا ہے نا۔ کہیں بھی ہے اسکو ثواب مل جائے گا۔ کچھ لوگ ایسے ہیں ہر وقت اللہ اللہ کرتے ہیں انکے دلوں پر خانہ کعبہ آ جاتا ہے۔
اور اس کا ثبوت ہے آتا ہے۔ مجدد صاحب نے دیکھا ایک دفعہ کہ باطنی مخلوق جن اور فرشتے اْنکو سجدہ کر رہئے ہیں۔ بڑے پریشان ہوئے کہ سجدہ انسان کو جائز ہی نہیں ہے۔ یہ مجھے سجدہ کیوں کر رہے ہیں استدراج تو نہیں ہو گیا۔ آواز آئی گبھراؤ نہیں یہ تمہیں سجدہ نہیں کر رہے وہ جو تمھارے اندر خانہ کعبہ بس گیا نا یہ اْس کو سجدہ کر رہے ہیں۔ جب رابعہ بصری کے دل میں خانہ کعبہ بسا اْس کبعے کو حکم ہوا کہ جا جا کر اْس کا طواف کرتجھے تو ابراہیم علیہ اسلام نے گارے مٹی سے بنایا اِسکو میں نے اپنے نور سے بنایا اب یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مثالی کعبہ تھا اصلی نہیں ہو سکتا مثالی کعبہ تھا۔ کہتے ہیں نا اگر وہ کعبہ مثالی تھا تو پھر وہ تخت بلقیس بھی مثالی ہو گا۔ اگر تخت بلقیس صیحح اصلی تھا تو پھر وہ خانہ کعبہ بھی اصلی تھا۔
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ رات کے وقت پہنچے خانہ کعبہ میں دیکھتے ہیں خانہ کعبہ ہی نہیں ہے لوگ سو رہے ہیں خانہ کعبہ ہی نہیں ہے۔ سوچتے ہیں پتہ نہیں قیامت آنے والی ہے اللہ تعالی نے اٹھا لیا آواز آئی نہیں یہ شمال کی طرف چلے جاؤ وہ ایک بوڑھیا کا طواف کر رہا ہے۔ جب شمال کی طرف جاتے ہیں تو رابعہ بصری ؒ بیٹھی ہوئی ہیں اور وہ انکا طواف کر رہا ہے۔
اؤ اسی بات کے اوپر شاہ منصورؒ سولی پر چڑھ گے وہ کہتے تھے تو اس کعبہ میں کیوں جاتا ہے۔
کعبے ول اوہی جاندے جہڑے ہوندے کم دے چوچی۔ وہ کہتے تو کعبہ اپنے اندر بسا، تا کہ وہ کعبہ تیرے پاس ائے۔
پھر مولانا رومی ؒ نے پھر کہا نا اْس کعبہ کے لئے وہ جس دل میں بس جائے تو پھر وہ دل ہزاروں کبعوں سے بہتر ہے۔
ہرآدمی سمجھتا ہے “حبل الورید” اللہ تعالی میری شہ رگ کے نزدیک ہے ہرآدمی سمجھتا ہے بڑی نادانی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی کہا تھا تو بھی تو ہرجائی ہے وہ کہتے تھے ہم شراب پیتے ہیں ، گناہ کرتے ہیں تو تو” حبل ا لو ر ید ” ہے۔ہمارے ساتھ ہے توپھر ہمارا حساب کتاب کس چیز کا لے گا۔ پھر جب جواب شکوہ دیا نا انھوں نے تو وہ”حبل الورید” اْن ہی کے ہیں جن لوگوں نے اْسکو اپنے اندربسا لیا ہے۔ جس کے دل میں اللہ کا نقشہ آ گیا ہے۔
اْس کبعے کے بعد پھر اللہ کا نقشہ آ تا ہے اْس بندئے میں۔ اْس وقت اللہ تعا لٰی پھر فرماتا ہے میں اِسی کے اندر ہوں۔
میں اِسکی زبان بن جاتا ہوں جس سے بولتا ہے، میں اٍسکے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے۔
شیطان کو پتہ ہے یہ انسان یہاں تک پہنچ سکتا ہے۔ اْس کے پاس ہندؤں فوج ہے۔ حکم دیتا ہے جا اِسکو برباد کر، پاگل کر، کچھ بھی کر اللہ اِس کے اندر نا جائے۔ ورنہ یہ ساری عمر کے لیے گیا۔ اب تمھارے پاس تو ایک جن بھی نہیں ہے جو اْسکا مقابلہ کرؤ۔ وہ آیءں گئے تمھیں ستائیں گے تمھارے اوپر ٹوٹ پڑیں گے۔ لیکن جہاں سے یہ ذکر عطاء ہوتا ہے اللہ تعالٰی اْنکو بھی رحمانی فوج دیتا ہے۔ شیطانی فوج تم پہ ٹوٹ پڑی اور رحمانی فوج شیطانوں پہ ٹوٹ پڑی۔ اور رحمانی فوج اْس وقت تک تمھارا ساتھ دے گی جب تک تمھارے اندر رحمان نہیں جاگ اْٹھتا۔ پھر بندہ نہیں رہے بندہ نواز بن گئے، غریب نہیں رہے غریب نواز بن گئے۔
اس کے لیے ہم آپ کو نہیں کہتے کہ آپ بیعت ہو جائیں کوئی نذرانہ طلب نہیں کرتے۔
اِک راز ہے امتی کا راز ہے۔ ملتا یہ مرشدوں سے ہے۔ لیکن اب جتنے بھی بیٹھے ہیں سب کا کوئی نہ کوئی تو مرشد ہو گا، نا۔ سارے نے اپنے مرشد کو کامل سمجھا تب بیعت ہوئے نا۔ اب سب کے مرشد کامل ہو بھی نہیں سکتے نا۔ پھر کیا خبر کس کا مرشد کامل ہے۔ پہلے تو اپنے پاس یہ کسوٹی ہونی چاہیے نا۔ اگر میرا مرشد کامل ہے تو پھر تو صیح ہے یقین ہو گیا نا۔ ابھی تو بے یقینی ہے نا۔ چور کو چور پہچانتا ہے۔ ولی کو ولی پہچانتا ہے۔ لاہور کا چور اْس کونے میں بیٹھا دو پشاور کا چور اِس کونے میں بیٹھا دو۔ واقف نہیں ہیں اْنکی نظریں ٹکرائیں گی نا۔ سمجھ جائے گا کہ میرا ہم پیٹی ہے۔ ایک ولی اْدھر بیٹھا دو ایک ولی اِدھر بیٹھا دو انکے دل ٹکرائیں گے۔ دلوں میں نور ہو گا دل ٹکرائیں گے۔ جب تمھارے دل میں نور آیا توتم بری سرکار چلے گے وہاں بھی نور یہاں بھی نور۔ وہاں بھی اللہ یہاں بھی اللہ، ٹکرائے گا نا۔ رقت پیدا ہو گی نا۔ جس طرح بادل بادل سے ٹکراتے ہیں گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی ہے نا۔ اللہ اللہ سے ٹکراتا ہے وہ رقت پیدا ہوگی نا۔ سمجھ جاؤ گئے کہ مرد کامل ہے۔ پھر تسلی کے لے داتا صاحبؒ چلے جانا وہاں بھی اللہ یہاں بھی اللہ رقت پیدا ہو گی ٹکراؤہو گا سمجھ جائیں گے ولی کامل ہے۔ ذکر آپ کا تیز ہو جائے گا۔ پھر اپنے مرشد کے پاس چلے جانا اسکے پاس جانے سے جو بات داتا صاحب ؒ کے ہوئی تھی، بری امامؒ کی ہوئی تھی۔ وہ ہوتی ہے تو تمھارا مرشد کامل ہے۔ پھر جان جاتی ہے جانے دینا اْسکو نہیں چھوڑنا کیوں کہ جان کو تو ویسے بھی جانا ہے نا۔پھر تم جیسے بھی ہوپھر’’ آپے ہی لاسی سارا ہو‘‘۔ اگر تو بار بار اْسکے پاس جاتا ہے، بار بار جاتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے پھر وہ کچھ بھی نہیں ہے نا۔پھر تیری عمر برباد ہو رہی ہے نا۔
اْس کبعے کے بعد پھر اللہ کا نقشہ آ تا ہے اْس بندئے میں۔ اْس وقت اللہ تعا لٰی پھر فرماتا ہے میں اِسی کے اندر ہوں۔
میں اِسکی زبان بن جاتا ہوں جس سے بولتا ہے، میں اٍسکے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے۔
شیطان کو پتہ ہے یہ انسان یہاں تک پہنچ سکتا ہے۔ اْس کے پاس ہندؤں فوج ہے۔ حکم دیتا ہے جا اِسکو برباد کر، پاگل کر، کچھ بھی کر اللہ اِس کے اندر نا جائے۔ ورنہ یہ ساری عمر کے لیے گیا۔ اب تمھارے پاس تو ایک جن بھی نہیں ہے جو اْسکا مقابلہ کرؤ۔ وہ آیءں گئے تمھیں ستائیں گے تمھارے اوپر ٹوٹ پڑیں گے۔ لیکن جہاں سے یہ ذکر عطاء ہوتا ہے اللہ تعالٰی اْنکو بھی رحمانی فوج دیتا ہے۔ شیطانی فوج تم پہ ٹوٹ پڑی اور رحمانی فوج شیطانوں پہ ٹوٹ پڑی۔ اور رحمانی فوج اْس وقت تک تمھارا ساتھ دے گی جب تک تمھارے اندر رحمان نہیں جاگ اْٹھتا۔ پھر بندہ نہیں رہے بندہ نواز بن گئے، غریب نہیں رہے غریب نواز بن گئے۔
اس کے لیے ہم آپ کو نہیں کہتے کہ اآپ بیعت ہو جائیں کوئی نذرانہ طلب نہیں کرتے۔
اِک راز ہے یہ امتی کا راز ہے۔ ملتا یہ مرشدوں سے ہے۔ لیکن اب جتنے بھی بیٹھے ہیں سب کا کوئی نہ کوئی تو مرشد ہو گا، نا۔ سارے نے اپنے مرشد کو کامل سمجھا تب بیعت ہوئے نا۔ اب سب کے مرشد کامل ہو بھی نہیں سکتے نا۔ پھر کیا خبر کس کا مرشد کامل ہے۔ پہلے تو اپنے پاس یہ کسوٹی ہونی چاہیے نا۔ اگر میرا مرشد کامل ہے تو پھر تو صیح ہے یقین ہو گیا نا۔ ابھی تو بے یقینی ہے نا۔ چور کو چور پہچانتا ہے۔ ولی کو ولی پہچانتا ہے۔ لاہور کا چور اْس کونے میں بیٹھا دو پشاور کا چور اِس کونے میں بیٹھا دو۔ واقف نہیں ہیں اْنکی نظریں ٹکرائیں گی نا۔ سمجھ جائے گا کہ میرا ہم پیٹی ہے۔ ایک ولی اْدھر بیٹھا دو ایک ولی اِدھر بیٹھا دو انکے دل ٹکرائیں گے۔ دلوں میں نور ہو گا دل ٹکرائیں گے۔ جب تمھارے دل میں نور آیا توتم بری سرکار چلے گے وہاں بھی نور یہاں بھی نور۔ وہاں بھی اللہ یہاں بھی اللہ، ٹکرائے گا نا۔ رقت پیدا ہو گی نا۔ جسطرح بادل بادل سے ٹکراتے ہیں گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی ہے نا۔ اللہ اللہ سے ٹکراتا ہے وہ رقت پیدا ہوگی نا۔ سمجھ جاؤں گئے کہ مرد کامل ہے۔ پھر تسلی کے لے داتا صاحب چلے جانا وہاں بھی اللہ یہاں بھی اللہ رقت پیدا ہو گی ٹکڑاؤہو گا سمجھ جائیں گے ولی کامل ہے۔ ذکر ا?پ کا تیز ہو جائے گا۔ پھر اپنے مرشد کے پاس چلے جانا اسکے پاس جانے سے جو بات داتا صاحب کے ہوئی تھی، بری امام کی ہوئی تھی۔ وہ ہوتی ہے تو تمھارا مرشد کامل ہے۔ پھر جان جاتی ہے جانے دینا اْسکو نہیں چھوڑنا کیوں کہ جان کو تو ویسے بھی جانا ہے نا۔پھر تم جیسے بھی ہوپھر آپے ہی لاسی سارا ھو۔ اگر تو بار بار اْسکے پاس جاتا ہے، بار بار جاتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے پھر وہ کچھ بھی نہیں ہے نا۔پھر تیری عمر برباد ہو رہی ہے نا۔
شخصیت کو پانا تومقصد نہیں ہے نا۔مقصد تو اللہ کو پانا ہے نا۔
اب اگر تجھے مرشد کی تلاش کرنی ہے۔ جب تو انگلی سے اللہ لکھنا شروع کر سب سے پہلے تیرا مرشد کا حق ہے اْسکو پکار کہتے ہیں مشکل میں مرشد کو پکارؤ اس سے بڑی مشکل کون سی ہے کہ تو اللہ کے لے ویزا لگوا رہا ہے۔ اس سے کون سے تمھارے اوپر مشکل ائے گی۔ دیکھو میرا مرشد میری انگلی کو پکڑ کر میرے دل پر اللہ لکھ رہا ہے۔ اگر وہ کامل ہوا تو وہ پہنچے گا جس کے لیے وہ مرا اْسکے لے وہ پہنچے گا نہیں۔ اگر کوئی نہیں آتا ہے یا تیرا مرشد کوئی نہیں ہے تو پھر جس دربار سے تجھے محبت ہے اْس دربار کا نقشہ لے لے کہ وہ دربار والا میری انگلی کو پکڑ کر میرے دل پر اللہ لکھا رہا ہے۔ اگر کسی دربار والے سے بھی محبت نہیں ہے، جاتا نہیں ہے۔ تو حضور پاک ﷺ کے روضے کو ہی لے لے کہ حضور پاک کے روضے کی طرف امتی ہوں نا میں اْن کا، مجھے راستے نہیں ہے میں تو راستہ ڈھونڈ رہاہوں نا کوئی آوئے میری مدد کرے نا۔ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے روضے کو تصور کر کہ وہی سے تجھے فیض حاصل ہورہا ہے۔ اگر وہاں بھی تو دیو بندی ٹائپ کا ہے اپنے جیسے سمجھتا ہے، تو خانہ کعبہ کو ہی لے لے، نہیں سمجھے،کہ خانہ کعبہ سے مجھے فیض حاصل ہو رہا ہے نا۔ تو پھر جو بھی تیرے سامنے آ گیا وہی تیرا مرشد ہے۔ بھئی جو بھی تیرے سامنے اْس وقت آ گیا وہی تیرا مرشد ہے۔ شخصیت کو پانا مقصد نہیں ہے مقصد اللہ کو پانا ہے نہ۔ کہیں سے بھی حاصل ہو جائے۔ یہ اِسکی اجازت ہوتی ہے۔
اب اسکے لیے گاڑیاں جس طرح اڈے پر جاتے ہو گا ڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ جو نقشبندی، چشتی، قادری،یہ بھی گاڑیاں ہیں ہاں ہاں۔ یہ وسیلے ہیں اللہ کو پہنچنے کے لیے منزل سب کی ایک ہے۔
یہاں سے جی ٹی ایس بھی جاتی ہے تو پرایؤیٹ بسیں بھی جاتی ہیں منزل تو پنڈی ہے نا۔ چشتی، نقشبندی، قادری، سہروردی سب کی منزل ایک ہے۔ گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ جو بھی دیکھتا ہے کہ انجن سٹارٹ ہے جا کر بیٹھ جا۔ کوئی جرم نہیں ہے۔خواہ نقشبندی میں بیٹھ چشتی میں بیٹھ جسکا انجن سٹارٹ دیکھ اْس میں بیٹھ جا۔ لیکن اگر گاڑی چل رہی ہے اس میں تو بیٹھا ہے پھر تو اترنے کی کوشش کرے گا تو زخمی ہو جائے گا، نا۔ پھر تو مجرم ہے نا۔ اگر تیرے اندر اللہ اللہ ہو رہی ہے۔ توپھر تیرے لیے تیرا مرشد کافی ہے۔ وہ اللہ والا ہے باقی منزل وہ ہی تجھے۔اگر وہ نہیں توکسی طرف بھیج دے گا، نا۔ اگر تیری گاڑی چل نہیں رہی ہے تو کسی بھی گاڑی پر بیٹھ جا تو مجرم نہیں ہے۔
ہم تمہیں بیعت نہیں کر رہے ہیں۔ ہم تمھیں روشن ضمیر بنا رہے ہیں۔ جب تم روشن ضمیر بن جاؤ گے نا۔ کسوٹی تمھارے پاس آ جائے گی نا۔ پھر تم مرشد کی تلاش میں نکلو گے نا۔ تو پھر جو بھی ملے گا اللہ والا ہے ملے گا، نا۔ بھئی یہاں کہتے ہیں نقشبندی، چشتی، قادری یقین کرو وہاں کہنا جرم ہے۔ وہاں تو سارے اللہ کے دوست ہیں، وہاں نقشبندی کیا تو چشتی کیا ؟ وہاں تو سارے ایک ہی جسم کے بال ہیں یہاں علیحدہ علیحدہ ہیں وہاں سارے ایک ہیں۔ ایک بال کو کھینچو گے تو سب کو تکلیف ہو گی۔ اْس وقت تک تمھارا ساتھ دیں گے، جب تک یہ تمھاری مخلوقیں جاگ نہیں اٹھتیں۔
اْس کبعے کے بعد پھر اللہ کا نقشہ آ تا ہے اْس بندئے میں۔ اْس وقت اللہ تعا لٰی پھر فرماتا ہے میں اِسی کے اندر ہوں۔
میں اِسکی زبان بن جاتا ہوں جس سے بولتا ہے، میں اٍسکے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے۔
شیطان کو پتہ ہے یہ انسان یہاں تک پہنچ سکتا ہے۔ اْس کے پاس ہندؤں فوج ہے۔ حکم دیتا ہے جا اِسکو برباد کر، پاگل کر، کچھ بھی کر اللہ اِس کے اندر نا جائے۔ ورنہ یہ ساری عمر کے لیے گیا۔ اب تمھارے پاس تو ایک جن بھی نہیں ہے جو اْسکا مقابلہ کرؤ۔ وہ آیءں گئے تمھیں ستائیں گے تمھارے اوپر ٹوٹ پڑیں گے۔ لیکن جہاں سے یہ ذکر عطاء ہوتا ہے اللہ تعالٰی اْنکو بھی رحمانی فوج دیتا ہے۔ شیطانی فوج تم پہ ٹوٹ پڑی اور رحمانی فوج شیطانوں پہ ٹوٹ پڑی۔ اور رحمانی فوج اْس وقت تک تمھارا ساتھ دے گی جب تک تمھارے اندر رحمان نہیں جاگ اْٹھتا۔ پھر بندہ نہیں رہے بندہ نواز بن گئے، غریب نہیں رہے غریب نواز بن گئے۔
اس کے لیے ہم آپ کو نہیں کہتے کہ آپ بیعت ہو جائیں کوئی نذرانہ طلب نہیں کرتے۔
اِک راز ہے امتی کا راز ہے۔ ملتا یہ مرشدوں سے ہے۔ لیکن اب جتنے بھی بیٹھے ہیں سب کا کوئی نہ کوئی تو مرشد ہو گا، نا۔ سارے نے اپنے مرشد کو کامل سمجھا تب بیعت ہوئے نا۔ اب سب کے مرشد کامل ہو بھی نہیں سکتے نا۔ پھر کیا خبر کس کا مرشد کامل ہے۔ پہلے تو اپنے پاس یہ کسوٹی ہونی چاہیے نا۔ اگر میرا مرشد کامل ہے تو پھر تو صیح ہے یقین ہو گیا نا۔ ابھی تو بے یقینی ہے نا۔ چور کو چور پہچانتا ہے۔ ولی کو ولی پہچانتا ہے۔ لاہور کا چور اْس کونے میں بیٹھا دو پشاور کا چور اِس کونے میں بیٹھا دو۔ واقف نہیں ہیں اْنکی نظریں ٹکرائیں گی نا۔ سمجھ جائے گا کہ میرا ہم پیٹی ہے۔ ایک ولی اْدھر بیٹھا دو ایک ولی اِدھر بیٹھا دو انکے دل ٹکرائیں گے۔ دلوں میں نور ہو گا دل ٹکرائیں گے۔ جب تمھارے دل میں نور آیا توتم بری سرکار چلے گے وہاں بھی نور یہاں بھی نور۔ وہاں بھی اللہ یہاں بھی اللہ، ٹکرائے گا نا۔ رقت پیدا ہو گی نا۔ جسطرح بادل بادل سے ٹکراتے ہیں گڑگڑاہٹ پیدا ہوتی ہے نا۔ اللہ اللہ سے ٹکراتا ہے وہ رقت پیدا ہوگی نا۔ سمجھ جاؤں گئے کہ مرد کامل ہے۔ پھر تسلی کے لے داتا صاحب چلے جانا وہاں بھی اللہ یہاں بھی اللہ رقت پیدا ہو گی ٹکڑاؤہو گا سمجھ جائیں گے ولی کامل ہے۔ ذکر ا?پ کا تیز ہو جائے گا۔ پھر اپنے مرشد کے پاس چلے جانا اسکے پاس جانے سے جو بات داتا صاحب کے ہوئی تھی، بری امام کی ہوئی تھی۔ وہ ہوتی ہے تو تمھارا مرشد کامل ہے۔ پھر جان جاتی ہے جانے دینا اْسکو نہیں چھوڑنا کیوں کہ جان کو تو ویسے بھی جانا ہے نا۔پھر تم جیسے بھی ہوپھر آپے ہی لاسی سارا ہو۔ اگر تو بار بار اْسکے پاس جاتا ہے، بار بار جاتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے پھر وہ کچھ بھی نہیں ہے نا۔پھر تیری عمر برباد ہو رہی ہے نا۔
شخصیت کو پانا تومقصد نہیں ہے نا۔
مقصد تو اللہ کو پانا ہے نا۔
اب اگر تجھے مرشد کی تلاش کرنی ہے۔ جب تو انگلی سے اللہ لکھنا شروع کر سب سے پہلے تیرا مرشد کا حق ہے اْسکو پکار کہتے ہیں مشکل میں مرشد کو پکارؤ اس سے بڑی مشکل کون سی ہے کہ تو اللہ کے لے ویزا لگوا رہا ہے۔ اس سے کون سے تمھارے اوپر مشکل ائے گی۔ دیکھو میرا مرشد میری انگلی کو پکڑ کر میرے دل پر اللہ لکھ رہا ہے۔ اگر وہ کامل ہوا تو وہ پہنچے گا جس کے لیے وہ مرا اْسکے لے وہ پہنچے گا نہیں۔ اگر کوئی نہیں آتا ہے یا تیرا مرشد کوئی نہیں ہے تو پھر جس دربار سے تجھے محبت ہے اْس دربار کا نقشہ لے لے کہ وہ دربار والا میری انگلی کو پکڑ کر میرے دل پر اللہ لکھا رہا ہے۔ اگر کسی دربار والے سے بھی محبت نہیں ہے، جاتا نہیں ہے۔ تو حضور پاک ﷺ کے روضے کو ہی لے لے کہ حضور پاک کے روضے کی طرف امتی ہوں نا میں اْن کا، مجھے راستے نہیں ہے میں تو راستہ ڈھونڈ رہاہوں نا کوئی آئے میری مدد کرے نا۔ حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے روضے کو تصور کر کہ وہی سے تجھے فیض حاصل ہورہا ہے۔ اگر وہاں بھی تو دیو بندی ٹائپ کا ہے ا پنے جیسے سمجھتا ہے، تو خانہ کعبہ کو ہی لے لے، نہیں سمجھے،کہ خانہ کعبہ سے مجھے فیض حاصل ہو رہا ہے نا۔ تو پھر جو بھی تیرے سامنے ا? گیا وہی تیرا مرشد ہے۔ بھئی جو بھی تیرے سامنے اْس وقت ا? گیا وہی تیرا مرشد ہے۔ شخصیت کو پانا مقصد نہیں ہے مقصد اللہ کو پانا نا۔ کہیں سے بھی حاصل ہو جائے۔ یہ اِسکی اجازت ہوتی ہے۔
اب اسکے لیے گاڑیاں جس طرح اڈے پر جاتے ہو گا ڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ جو نقشبندی، چشتی، قادری،
یہ بھی گاڑیاں ہیں ہاں ہاں۔ یہ وسیلے ہیں اللہ کو پہنچنے کے لیے منزل سب کی ایک ہے۔
یہاں سے جی ٹی ایس بھی جاتی ہے تو پرایؤیٹ بسیں بھی جاتی ہیں منزل تو پنڈی ہے نا۔ چشتی، نقشبندی، قادری، سہروردی سب کی منزل ایک ہے۔ گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ جو بھی دیکھتا ہے کہ انجن سٹارٹ ہے جا کر بیٹھ جا۔ کوئی جرم نہیں ہے۔خواہ نقشبندی میں بیٹھ چشتی میں بیٹھ جسکا انجن سٹارٹ دیکھ اْس میں بیٹھ جا۔ لیکن اگر گاڑی چل رہی ہے اس میں تو بیٹھا ہے پھر تو اترنے کی کوشش کرے گا تو زخمی ہو جائے گا، نا۔ پھر تو مجرم ہے نا۔ اگر تیرے اندر اللہ اللہ ہو رہی ہے۔ توپھر تیرے لیے تیرا مرشد کافی ہے۔ وہ اللہ والا ہے باقی منزل وہ ہی تجھے۔اگر وہ نہیں توکسی طرف بیھج دے گا، نا۔ اگر تیری گاڑی چل نہیں رہی ہے تو کسی بھی گاڑی پر بیٹھ جا تو مجرم نہیں ہے۔
ہم تمہیں بیعت نہیں کر رہے ہیں۔ ہم تمھیں روشن ضمیر بنا رہے ہیں۔ جب تم روشن ضمیر بن جاؤ گے نا۔ کسوٹی تمھارے پاس آ جائے گی نا۔ پھر تم مرشد کی تلاش میں نکلو گے نا۔ تو پھر جو بھی ملے گا اللہ والا ہے ملے گا، نا۔ بھئی یہاں کہتے ہیں نقشبندی، چشتی، قادری یقین کرو وہاں کہنا جرم ہے۔ وہاں تو سارے اللہ کے دوست ہیں، وہاں نقشبندی کیا تو چشتی کیا ؟ وہاں تو سارے ایک ہی جسم کے بال ہیں یہاں علیحدہ علیحدہ ہیں وہاں سارے ایک ہیں۔ ایک بال کو کھینچو گے تو سب کو تکلیف ہو گی۔ اْس وقت تک تمھارا ساتھ دیں گے، جب تک یہ تمھاری مخلوقیں جاگ نہیں اٹھتیں۔
اِنشا اللہ پکارؤ گے اِنشا اللہ پہنچیں گے۔اس کے لیے کوئی شرط نہیں ہے۔ جب معاملہ گڑ بڑ ہو جاتا ہے پہلے سارے کام پنچائیتیں کرتیں ہیں جب پنچائیتیں گڑ بڑ ہو گیں پھر براہ راست سودا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام مرشدوں کا تھا ،عالم ربانی کا تھا یہ ہی گڑبڑ ہو گئے۔ جب یہ ہی گڑ بڑ ہیں تو ہم کدھر جائیں۔ ہم اب اللہ سے رابطہ اْس سے امداد طلب کریں۔ اور یقین کرؤ اب کوئی دوزخ میں جائے یا بہشت میں جائے۔ ہمیں کیا غم ہے، ہمیں کیا افسوس ہے۔ اگر غم ہو گا تو تمھارے نبی کو ہو گا،نا جسکی اْمت ہو۔ ہم تمھارے اللہ کے درمیان ایک ایجنٹ ہیں۔ ایجنٹ کیا کرتا ہے پہلے گاڑی بیچنے والے کو راضی کرتا ہے پھر خریدنے والے کو راضی کرتا ہے۔ پہلے تو تمھیں راضی کریں گے نا پھر اْسکو راضی کریں گے۔ اب اْس ایجنٹ کو کیا ملے گا جب دونوں فریق راضی ہو گے تو۔ کمیشن ملے گا ،نا پیسے ملیں گے نا۔ تو ہمیں کیا ملے گا جب دونوں فریق راضی ہو گے۔ جو تمھارے اندر اللہ اللہ ہو گی ہمیں اْسکا کمیشن ملے گا،نا۔ ہم اْسکے لے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں نا۔
اِسکے لے اپنی قسمت آزماؤں۔ اگر اللہ اللہ اندر چلا گیا تو دعا دئے دینا ۔
اگر نہ گیا تو جیسے ہو ویسے تو ہو ہی نا۔ پانچ سات دن پریکٹس کر کے تو دیکھونا۔
ہر آدمی سوچتا ہے اللہ تعالی مجھ پر مہربان ہے۔ کیوں ؟ بڑا اللہ کا کرم ہے کیوں ؟ کار بنگلہ ہے کرم نہیں ہے تو اور کیا ہے اسی پر خوش ہو،نا۔ دوسرے سے کہتے ہیں کیا حال ہے بڑا کرم ہے کیوں غریب خاندان سے تھا اتنا بڑا فسر ہو گیا کرم نہیں تو اور کیا ہے اور تیسرے سے پوچھتے ہیں کہ کیا حال ہے بڑا کرم ہے کیوں؟ میں اتنا بوڑھا ہوں، اتنی صحت ہے کرم نہیں تو کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر تم اسکو کرم سمجھتے ہو تو یہ چیزیں تو کافروں کے پاس بھی ہیں۔ تمھارے اوپر اللہ کا کوئی کرم نہیں کرم ہوتا تو تم کو اپنے نام لینے والوں میں لیتا۔ پھر جب وہ کار بنگلہ دیتا تو پھر کرم ہی کرم ہے نا۔ پھر افسری دی پھر اور کرم ہے نا۔
اپنے آپ کو پہچاننے کا راز، مرشد کو پہچاننے کا راز اور اللہ کو پہنچاننے کا میرے اوپر کتنا مہربان ہے، یہ ہی کسوٹی ہے۔گجرانوالا میں ایک انگریز نے سوال کیا میں مسلمان ہونے کو تیار ہوں ساری برایئاں چھوڑ دوں گا شراب بھی چھوڑ دوں گا، نمازیں بھی پڑھوں گا، تہجد بھی پڑھوں گا، روزے بھی رکھوں گا، مجھے ایک چیز کی گارنٹی دو کہ کیا؟ تمھارے علماء کہتے ہیں کہ پھر بھی نہیں پتا کہ تو دوزخی ہے یا بہشتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں مذہب چھوڑ کے جا ؤں تو وہ کہتے ہیں ہمیں اپنا نہیں پتا کہ ہم دوزخ میں جائیں گے یا جنت میں جایءں گے۔ تو تجھے گارنٹی کیا دیں۔ وہ اپنی گارنٹی نہیں دے رہے۔ اْس نے کہا کہ جس فرم کی سند کمزور ہے وہیں گارنٹی نہیں ملتی تمھارا دین اسلام کمزور ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مذہب اسلام تو گارنٹی ہی گارنٹی ہے سالوں کی بات نہیں مہینوں کے بات نہیں چند دنوں میں ہی پتہ چل جائے گا کہ تم کیا ہو۔ اگر تمھارے اندر اللہ اللہ شروع ہو گیا تو گارنٹی ہی گارنٹی ہے۔ جس میں ذرا بھی نور ہے وہ دوزخ میں جائے گا ہی نہیں نا۔ اسکے لیے ذکر لو اور قسمت آزماؤ کہو تو تھوڑی سی بات اور کہہ دؤں۔
اِس وقت 72 فرقے ہیں نا حضور پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں فرقے کوئی نہیں تھے نا۔ امتی تھا یا منافق تھا یا خوارج تھا۔ یہ ہی دو تھے نا۔ خوارج کون تھے وہ کہتے تھے کہ ہم سب نمازیں پڑھیں گے تسبیح بھی رولیں گے تلاوت بھی کریں گے سارے اعمال پورے کریں گے، لیکن سود کا کاروبار نہیں چھوڑیں گے وہ خوارج ہو گے۔ حضور پاک نے ان کو نکال دیا وہ اپنے آپ کو مسلمان امتی سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ نکالے ہوے ہیں۔۔ دوسرے منافق تھے۔ وہ خوارج آج بھی موجود ہیں اس دنیا میں موجود ہیں، بہت ہیں۔ دوسرے منافق، منافق کہتے تھے کہ صرف اِن پے قرآن اتارا ہے نا، کتاب اتری ہے نا، ان میں اور ہم میں کیا فرق ہے یہ بھی کھاتے پیتے ہیں شادیاں ہیں اِنکی ،اللہ اور ہمارے درمیان یہ ایک ڈاکیا تھے ، وہ لوگ بھی ملتے ہیں۔ نا خوارج کی عبادت قبول نا منافق کی۔ اب رہا سوال امتی رہ گیا نا اب جو باقی رہ گے اْن کے لے حضور پاک نے فرمایا نا جھوٹا میرا امتی ہی نہیں ہے۔ اب تم جھوٹ سے بھی بڑے بڑے کام کر جاتے ہو، کر جاتے ہو نا۔ اب تمھیں کیا خبر تمھیں نکالا ہوا ہے یا نہیں تو امت میں ہے یا نہیں کوئی ثبوت نہیں ہے نا ثبوت ہونا چاہے نا۔ پھر آدمی گاڑی کو دوڑائے نا۔ اگر منافقت کو پتہ چل جائے کہ میری نماز ہوتی ہی نہیں ہے تو نماز کیوں پڑھے وہ، کیوں پڑھے اْسکو ہوتی نہیں ہے کیوں پڑھے جو جتنے بھی امتی تھے اللہ تعالی نے اْنکا جو ورثہ نور تھا اْنکی قسمت میں تھا ، اس دنیا میں بھیج دیا۔ بغیر کسی شرط کے اپنا حصہ تم لے جاؤ۔ لینے کے لیے کچھ طریقے ہوتے ہیں کہیں لائین میں لگنا پڑتا ہے تو کہیں ٹکٹ، کہیں پرچی وہ کچھ طریقے ہیں۔
جو تم کو طریقہ بتا دیا ہے۔ اپنا حصہ لے جاؤ۔ اگر تمھارے کو وہ نور ملتا ہے، تمھارے اندر اللہ اللہ ہوتی ہے۔تو پھر تم امتی ہو۔بھئی امتی کی پہچان ہے جس میں نور ہو گا، پھر تم امتی ہو نا۔ جب تک نہیں پتا تھا نہیں پتا تھا اب تو پتہ چل گیا نا۔اب دؤائی بھی مل گی نا۔ تودؤائی اگر اثر نہیں کرتی پھر کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ورثہ آنے کے باوجود تمھارے
اندر اللہ اللہ نہیں ہوتی، تمھیں وہ نور حاصل نہیں ہوتا۔ پھریا منافق ہو تو یا خوارج یہ تمھیں تسلیم کرنا پڑے گا۔
پھر یہ جتنے بھی فرقے ہیں یا توکوئی منافق ہیں یا خوارج ہیں اصلی امتی نہیں ہے۔ اور جب تم امتی بن گے تو یہ سارے فرقے ختم ہو گے۔ سارے امتی ہو گے نا سارے نور ہو گے نا، جس طرح مغرب میں پہاڑ ہیں مقناطیس کے اِدھر قطب نما پڑا ہے۔ جس شہر میں لے کرجاو، بھلے اْسکو آگے پیچھے بھی کرؤ اْسکا رخ اْدھر ہی مغرب کی طرف ہو گا نا۔ اسکا تعلق ہے نا اْس سے۔ جب تمھارے دل میں نور آ جائے گا۔ تو پھر تم بھلے دیو بندی ہو، یا مرزئی ہو یا وہابی ہو تمھارا رخ اللہ کی طرف ہو گا۔ جب تمھارا رخ اللہ کی طرف ہو گیا پھر جدھر اللہ اْدھر تم۔ اس کے لیے اجازت لو اور اپنی قسمت آزماؤ۔ میرے خیال میں کہ ذکر لینے والے زیادہ ہیں گْزارنے میں وقت بہت لگے گا۔ اب میں نہیں کہتا کہ تم ذکر لے لو اگر تمھیں دل مانتا ہے جس کا دل مانتا ہے وہ میری زبان کے ساتھ اقرار کرنا پڑئے گا تین دفعہ اللہ ہو کا۔ اْسکو ذکر کی اجازت ہو گی۔ تو جسکو ذکر نہیں لینا وہ خاموش ہی رہے
جو اِدھر گونگا، وہ اْدھر بھی گونگا۔
اِس لیے پڑھو جی اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

*****اللہ ھو*****اللہ ھو******اللہ ھو******اللہ ھو******اللہ ھو******اللہ ھو******اللہ ھو*****

Lafz e Allah

اللہ 
سریانی ذبان جو آسمانوں پر بولی جاتی ہے ۔فرشتوں اور رب اسی ذبان میں مخاطب ہوتے ہیں۔جنت میں آدم صفی اللہ بھی یہی ذبان بولتے تھے۔پھر حضرت آدم صفی اللہ اور مائی حوا دنیامیں آئے،عربستان میں آکر آباد ہوئے ۔اُن کی اولا دبھی یہی ذبان بولتی تھی ۔پھر آل کے دنیا میں پھیلاوکی وجہ سے یہ ذبان عربی ،فارسی،لاطینی،سے نکلتی ہوئی انگریزی تک جا پہنچی،اور اللہ مختلف ذبانوں میں علیحدہ علیحدہ پکارا جانے لگا ۔آدم علیہ اسلام کے عرب میں رہنے کی وجہ سے سریانی کے بہت سے الفاظ اب بھی عربی میں موجود ہیں ۔جیسا کہ آدم کو آدم صفی اللہ کے نام سے پکارا تھا ۔نوح نبی اللہ ،ابراہیم خلیل اللہ،پھر موسی کلیم اللہ ،عیسی روح اللہ اورشافع روز محشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محمد الرسول اللہ ﷺ کے نام سے پکارا گیا۔یہ سب کلمے سریانی ذبان میں لوح محفوظ پر ان انبیاء کے آنے سے پہلے درج تھے ،تبھی حضورپاک ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی نبی تھا ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ ’’اللہ‘‘ مسلمانوں کا رکھا ہوا ہے۔مگر ایسا نہی ہے

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد کا نام عبداللہ تھا۔جبکہ اس وقت اسلام نہی تھا ۔اور اسلام سے پہلے بھی پر نبی کے کلمے کیساتھ اللہ پکارا گیا ۔جب روحیں بنائی گئیں تو ان کی ذبان پر پہلا لفظ ’’اللہ‘‘ ہی تھا ۔اور پھر روح آدم علیہ اسلام کے جسم میں داخل ہوئی تو یا اللہ پڑہ کر داخل ہوئی تھی ۔بہت سے مذاہب اس رمز کو حق سمجھ کر اللہ کے نام کا ذکر کرتے ہیں ۔بہت سے شکوک و شہبات کی وجہ سے اس سے محروم ہیں۔

جو بھی نام رب کی طرف اشارہ کرتا ہے قابل تعظیم ہے
یعنی اللہ طرف رُخ کر دیتا ہے ۔مگر ناموں کے اثر سے متفرق ہوگئیے ۔حروف ابجد اور حروف یہجی کی رو سے ہر لفظ کا ہندسہ علیحدہ ہوتاہے ،یہ بھی آسمانی علم ہے۔اور اِن ہندسوں کا تعلق کل مخلوق سے ہے۔۔بعض دفعہ یہ ہندسے ستاروں کے حساب سے موافقت نہی رکھتے۔جس کہ وجہ سے انسان پریشان رہتاہے ۔بہت سے لوگ اس علم کے ماہرین ستاروں کے حساب سے ذائیچہ بنوا کر نام رکھتے ہیں۔جیسا کہ ابجد (ا،ب،ج،د)(۱،۲،۳،۴) ک ے دس (۱۰) عدد بنتے ہیں۔اسی طرح ہر نام کے علیحدہ اعداد ہوتے ہیں۔جب اللہ کے نام مختلف نام رکھ دئیے گئیے تو ابجد کے حساب سے ایک دوسرے سے ٹکراوکا سبب بن گئیے ۔اگر سب ایک ہی رب کو پکارتے تو مذہب جُداجُداہونے
کے باوجود،اندر سے ایک ہی ہوتے ۔پھر بابا گرونانک اور بابا فریدؒ کی طرح یہی کہتے
سب روحیں اللہ کے نور بنی ہیں ۔لیکن ان کا ماحول اور ان کے محلے الگ الگ ہیں
جن فرشتوں کی دنیا میں ڈیوٹی لگائی جاتی ہے ،انہیں اسی دنیا والوں کی بولی بھی سکھائی جاتی ہے۔امتیوں کے لئیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نبی کا کلمہ،جو نبی کے ذمانے میں امت کی پہچان،فیض اور پاکیزگی کے لئیے رب کی طرف سے عطا ہوا تھا ، اُسی طرح اُسی ذبا ن میں کلمہ کی تکرار کیا کرے ۔کسی کو کسی بھی مذہب میں آنے کے لئیے یہ کلمے شرط ہیں۔جس طرح نکاح کے وقت ذبانی اقرار شرط ہے ۔ جنتوں میں داخلے کے لئیے بھی یہ کلمے شرط کر دئیے گئیے ۔لیکن مغربی ممالک میں بیشتر مسلم ممالک اور عیسائی اپنے مذہب کے کلموں حتی کہ اپنے نبی کے اصلی نام سے بے خبر ہیں۔ذبانی کلمے والے اعمال صالح کے محتاج،کلمہ نہ پڑھنے والے والے جنت سے باہراور جن کے دلوں میں بھی کلمہ اُتر گیا تھا ،وہی بغیر حساب کے جنت میں جائیں گیں۔آسمانی کتابیں جو جس ذبان میں بھی اصلی ہیں۔وہ رب تک پہنچانے کا زریعہ ہیں ،لیکن جب ان عبارتوں اور ترجموں میں ملاوٹ کر دی گئی،جس طرح ملاوٹ شدہ آٹا پیٹ کے لئیے نقصان دہ ہے،اس ی طرح ملاوٹ شدہ کتابیں دین میں نقصان بن گئیں ہیں اور ایک ہی دین ،نبی والے کتنے فرقوں میں بٹ گئیے ۔
صراطِ مستقیم کے لیے بہتر ہے کہ تم نو ر سے بھی ہدایت پا جاؤ

نور بنانے کا طریقہ 
پرانے ذمانے میں پتھروں کی رگڑ سے آگ حاصل کی جاتی تھی ۔جبکہ لوہے کی رگڑ سے بھی چنگاری اُٹھتی ہے ۔پانی پانی سے ٹکرایا تو بجلی بن گئی۔اس طرح انسان کے اندر کے خون کے ٹکراؤیعنی دل کی ٹک ٹک سے بھی بجلی بنتی ہے ۔انسانی جسم کے اندر تقریبا ڈیڑہ والٹ بجلی موجود ہے ،جس کے زریعے اس میں پُھرتی ہے ،
بڑھاپے میں ٹک ٹک کی رفتار سست ہونے سے بجلی میں بھی اور چستی میں بھی کمی آجاتی ہے ۔سب سے پہلے دل کی دھڑکنوں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ڈانس کے ذریعے،کوئی کبڈی یا ورزش کے زریعے اور کوئی اللہ اللہ کی ضربوں سے یہ عمل کرتے ہیں ۔
جب دل کی دھڑکنوں میں تیزی آجاتی ہے پھر ہر دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ یا ایک دھڑکن کیساتھ’’اللہ‘‘ اور دوسری دھڑکن کیساتھ ’’ہو‘‘ ملائیں۔کبھی کبھی دل پر ہاتھ رکھیں،دھڑکنیں محسوس ہوں تو اللہ ملائیں،کبھی نبض کی رفتار کے ساتھ اللہ ملائیں۔تصور کریں کہ اللہ دل میں جا رہا ہے ۔اللہ ہو کا زکر بہتر اور ذود اثر ہے ،اگر کسی کو ’’ہو‘‘پر اعتراض یا خوف ہو تو وہ بجائے محرومی کے دھڑکنوں کے ساتھ اللہ اللہ ہی ملاتے رہیں،وردو وظائف اور ذکوریت والے لوگ جتنا بھی پاک صاف رہیں اُن کے لےئے بہتر ہے ۔کہ:
بے ادب ،بے مُراد۔۔۔۔ با ادب ، با مُراد

پہلا طریقہ ۔۔ 
کاغذ پر کالی پینسل سے اللہ لکھیں،جتنی دیر طبیعت ساتھ دے ،روزانہ مشق کریں
ایک دن لفظ اللہ کاغذ سے آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جائے گا پھر آنکھوں سے سے تصور کے زریعے دل پر اُتارنے کی کوشش کریں۔

دوسرا طریقہ :
زیرو کے سفید بلب پر پیلے رنگ سے اللہ لکھیں،اُسے سونے سے پہلے یا جاگتے وقت آنکھوں میں سمونے کی کوشش کریں۔جب آنکھوں میں آجائے تو پھر لفظ اللہ کو دل پر اُتاریں۔

تیسرا طریقہ :
یہ طریقہ ان لوگوں کے لئیے ہے جن کے راہبر کامل ہیں،اور تعلق اور نسبت کی وجہ سے روحانی امداد کرتے ہیں۔تنہائی میں بیٹھ کر شہادت کی انگلی کو قلم تصور کریں اور تصور سے دل پر لفظ اللہ لکھنے کی کوشش کریں ،راہبر کو پکاریں کہ وہ بھی تمہاری انگلی پکڑ کر تمہارے دل پر اللہ لکھ رہا ہے یہ مشق روزانہ کریں جب تک دل اللہ لکھا نظر نہ آئے ۔
پہلے طریقوں میں اللہ ویسے ہی نقش ہوتا ہے ، جیساکہ باہر لکھا یا دیکھا جاسکتا ہے۔پھر دھڑکنوں سے اللہ ملنا شروع ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ چمکنا شروع ہو جاتا ہے۔چونکہ اس طریقے میں راہبر کامل کا ساتھ ہوتاہے ۔اس لئیے شروع سے ہی خوشخط اور چمکتا ہوا دل پر اللہ لکھا نظرآتا ہے ۔
دنیا میں کئی نبی ولی آئے، زکر کے دوران بطور آذمائش باری باری،اگر مناسب سمجھیں تو سب کا تصور کریں جس کے تصور سے ذکر میں تیزی اور ترقی نظرآئے ،آپ کا نصیبہ اُسی کے پاس ہے ۔پھر تصور کر کے لےئے اسی کو چُن لیں،کیونکہ ہر ولی کاقدم کسی نہ کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہے ،بے شک نبی ظاہری حیات میں نہ ہو ۔
اور ہر مومن کا نصیبہ کسی نہ کسی ولی کے پاس ہوتا ہے۔ولی کی ظاہری حیا ت ضروری ہے ۔لیکن کبھی کبھی کسی کو مقدر سے کسی ممات والے کامل ذات سے بھی ملکوتی فیض ہو جاتا ہے ،لیکن ایسا بہت ہی محدود ہے ۔البتہ ممات والے دربارو ں سے دنیاوی فیض پہنچا سکتے ہیں ۔ اسے اویسی فیض کہتے ہیں اور یہ لوگ اکثر کشف اورخواب میں الجھ جاتے ہیں، کیونکہ مرشد بھی باطن میں اور ابلیس بھی باطن میں۔ دونوں کی پہچان مشکل ہوتی جاتی ہے ۔
فیض کے ساتھ علم بھی ضروری ہوتا ہے،جس کے لئیے ظاہر ی مرشدذیادہ مناسب ہے ،اگر فیض ہے ،علم نہی تو اُسے مجذوب کہتے ہیں۔فیض بھی ہے اور علم بھی اُسے محبوب کہتے ہیں۔محبوب علم کے زریعے لوگوں کو دنیاوی فیض بھی پہنچاتے ہیں،جبکہ مجذوب ڈنڈوں اور گالیوں سے فیض پہنچاتے ہیں ۔

اگر کوئی بھی آپکی مدد نہ کرے تو پھر آپ گوہر شاہی کو آذما کر دیکھیں۔مذہب کی قید نہی ،البتہ اذلی بدبخت نہ ہو ۔بہت سے لوگوں کو چاند سے بھی ذکرعطا ہو جاتا ہے ۔اُس کا طریقہ ہے جب بھی پورا چاند مشرق کی طرف ہو ،غور سے دیکھیں،جب صورتِ گوہر شاہی نظرآجائے۔تو تین دفعہ اللہ اللہ اللہ کہیں ،اجاذت ہوگئی ۔پھر بے خوف و خطر درج شدہ طریقے سے مشق شروع کر دیں۔یقین جانئیے ،چاند والی صورت بہت سے لوگوں سے ہر ذبان میں بات چیت بھی کر چُکی ہے ۔آپ بھی دیکھ کربات چیت کی کوشش کریں۔
ذکر کیا ہے اور فکر کیا ہے

اسلام کے پانچ ارکان ہیں، کلمہ، نماز،روزہ، حج،ذکواۃچار وقتی ہیں جو مقررہ وقت پر ادا کرنے ہوتے ہیں۔لیکن ایک کلمہ دائیمی ہے

افضل الذکر کلمہ طیب یعنی کلمہ طیب ذکرمیں ہے اور ذکر کے لئیے قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے :
فاذا قضیتم الصلواۃ فاذکر و اللہ قیاماو قعوداعلی جنوبکم
ترجمہ :جب نماز پوری کر لو تو اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جاؤ۔کھڑے بھی ، بیٹھے بھی ،اور کروٹ کے بل بھی ۔( سورۃ النساہ آیت نمبر103)

کلمہ طیبہ کے چوبیس حروف ہیں: لاالہ الا اللہ بارہ لفظ جلالی اور بارہ جمالی :محمد الرسول اللہ ( ﷺ) اس کے پورے ذکر سے انسان معتدل رہتا ہے اوریہ دوائی کے طرح ہے لیکن جلدی اثر کے لےئے جو ٹیکہ کی طرح ہو وہ عرق یو ں ہے بارہ لفظ کی تلخیص چار لفظ’’ال ل ھ‘‘میں ہے ۔اللہ اس کے نام کی طرف اشارہ ہے یہ لفظ شریعت والوں کے لئیے ہے اور اسکا عالم ناسوت ہے اللہ کا الف ہٹایا جائے تو للہ رہ جاتا ہے۔یہ اس کے زریعہ اور واسطہ کو ظاہر کرتا ہے اس کا مقام طریقت اور عالم ملکوت ہے ۔للہ کا لام ہٹایا جائے تو لہُ رہ گیا جوضمیر اسم اللہ ذات کی طرف اشارہ کرتا ہے اس کا مقام حقیقت اور عالم جبروت ہے لہُ کا لام ہٹایا جائے تو سب کا نچوڑ ھو رہ گیا ۔ھو اس ذات کی طرف اشارہ ہے اس کا مقام معرفت اور عالم لاہوت ہے اسی ھو سے سالک فنا ہو جاتا ہے یعنی فنائے نفس اورفنائے گناہ۔بہت سے لوگ ھو کے ذکر سے ڈرتے ہیں کہ یہ تباہ کر دیتا ہے اور ویرانوں میں کرنے کا ہے واقعی یہ نفسوں کو تباہ کردیتا ہے۔اور جن لوگوں پر نفس سوارہیں وہ اس ھو سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کوا تیر سے۔لیکن بطور مسلمان کہلوانے اس زکر کا انکار بھی نہی کر سکتے ،کہتے ہیں کہ ذکر خفی کرو۔ذکر جہر کی مخالفت کرتے ہیں ۔لیکن ذکر جہر ہی وسیلہ زکر قلبی ہے۔ذبان سے اقرار اور قلب سے تصدیق ہے ۔حدیث شریف میں ذکر جہر کے بارے میں آیا کہ :
ان فی ذکر جہر عشر فوائد الاول صفاء القلوب و تنبیہہ الغافلین و صحتہ الابدان و محاربتہ یاعذاء اللہ تعالی و اطہار الدین ونفی خواطر اشیطانیہ النفسانیہ النفسانیتہ والتوحید الی اللہ تعالی والاعراض عن غیر اللہ تعالی رفع الحباب بینہ و بین اللہ تعالی ( الوابل العیب)
ترجمہ :ذکر جہر میں دس فائدے ہیں ۱ ۔دل کی صفائی ۲۔غفلت سے تنبہیہ ۳۔جسم کی صحت۴۔اللہ تعالی کے دشمنوں سے جنگ۵۔اظہارِ دین۶۔علاج شیطان ۷۔علاج نفسانی ۸۔توجہ الی اللہ ۹۔غیر اللہ سے نفرت ۱۰۔خدا اور بندے کے درمیان سے حجاب اُٹھ جانا ۔
لیکن اگر کسی کے ہفت اندام ذکر خفی میں ہیں تو زکر جہر سے بیک آواز سالک کے سینے میں شور برپا کر دیتے ہیں اورذاکر کے بال بال سے ذکر کی آواز گونجتی ہے

طریقہ ذکر :
ذکر جہر کے وقت دو ذانوں بیٹھے دل پر ضربیں لگائے اگر شریعت میں تو دل پر تصور ’’اللہ‘‘ کا اور اگر طریقے میں تو لفظ ’’للہ‘‘ جمائے ذکر دوران دنیاو مافہیا سے خیال ہٹا کر یکسوئی پیدا کرے ،تصورخیال اور ذکر سے جلد منزل کو پہنچے گا۔اس قسم کا ذکر جہر ذیادہ دیر قائم نہی رہ سکتا کیونکہ سانس پھول جاتا ہے اور سینے میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے اور حلق خشک ہو جاتا ہے اس کے بعد ذکر کرے جیسا کہ حضور پاک ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا :
غمض عینیک یا علی واسمع فل قلبک لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ( ﷺ)
ترجمہ :اے علی تو اپنی آنکھیں بند کر اور اپنے دل میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ( ﷺ) سُن۔( مشکوۃ شریف )
جب بیٹھ کر ذکر خفی کر چکے تو پھر چلتے پھرتے کام کاج کرتے حتی کے بستروں کروٹوں پر بھی اللہ کا ذکر خفی کرتا رہے۔آج کل جو ذکرجہر کیا جاتا ہے وہ واقعی قابل اعتراض اور بے سود ہے جیسا کہ سڑکوں پر ٹولیوں کی شکل میں ذکر جہر کرتے جا رہے ہیں خیال و نظر آنے جانے والوں اور دیکھنے والوں کی طرف ہے ۔اسی قسم کے ذکر جہر کی ممانعت کی گئی ہے۔کیونکہ اس میں فکر ، ادب اور مراقبے کا کوئی پاس نہی ۔جبکہ مخالفین ہر قسم کا اعتراض ذکر جہر پر کرتے ہیں۔جس طرح قرآن پاک میں بار بارنماز کا حکم آیا اسی طرح بار بار ذکر کا حکم بھی آیا اگر کوئی شریعت میں تو روزانہ پانچ ہزار دفعہ ذکر کر ے اگر کوئی عالم شریعت میں ہے تو اسے پچیس ہزار دفعہ روزانہ ذکر کرنا پڑتا ہے تب اسکو مقتدیوں پر فضیلت ہے
اگر کوئی راہ طریقت میں چل رہا ہے یا پھر فقیر ہے تو وہ 72ہزار دفعہ روزانہ ذکر کرے ورنہ محض ذبانی دعوی ہے ۔یہ ذکر خواہ جہری ہو یا قلبی لیکن ذکرجہر سے ذیادہ فضیلت ذکر قلبی کو ہے البتہ اگر قلب کا منہ کھل جائے اگر قلب خفی میں ہو اور ذبان ذکر جہر میں ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے۔
اللہ تعالی کے نناوے نام ہیں صرف اللہ ذاتی اور باقی صفاتی ہیں ۔حضرت عیسی علیہ اسلام یا قدوس کا ورد ( ذکر ) کیاکرتے تھے حضرت سلیمان علیہ اسلام یاوہاب کا اور حضرت داود وعلیہ اسلام یا ودود کا اور حضرت موسی علیہ اسلام کو یا رحمن صفاتی اسماء ملے ۔ ان اسماء سے ان کے کے جسموں کے اندر جو نور آیا وہ صفاتی تھا اگر انہوں نے اپنی حیاتی میں ر ب کو دیکھنا چاہا ت ذاتی نور کی تاب نہ لا سکے لیکن یہ ذاتی اسم حضور پاک ( ﷺ) کو ملا تب ہی جہاں حضرت موسی علیہ اسلام بہوش ہوے وہاں آپ ﷺ مُسکرا رے ہیں آپ ﷺ کے طفیل یہ اسم مبارک آپ ﷺ کی امت کو ملا تبھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے ولیوں پر بنی اسرائیل کے نبی بھی رشک کریں گےَ
اس ذاٹی اسلم کے طفیل اس امت کو فضیلت دی گئی اور اسی اسم کا نور اس امت کی پہچان ہو گا وہ اسم جس کے لئیے نبی بھی رشک کرتے رہے اور امتی ہونے کی التجا کرتے رہے افسوس کہ اب امت اس سے محروم ہو گئی ۔
باقی ہر اسم کسبی ہے لیکن اسم اللہ عطائی ہے یہ اپنی محنت سے نہی جمتا اس کے لئے مرشد کام ضروری ہے ۔ بعض لوگ اپنے کسب سے اس اسا8 کو جمانے کی کوشش کرتے ہیں یا اس کی تاب نہ لا کر دیوانے ہو جاتے ہیں یا رجعت میں چلے جاتے ہیں یا ان کو اس اسم سے کچھ فیض حاصل نہی ہوتا الٹا بدگمان ہو جاتے ہیں لیکن اس اسم سے بدگمانی ’’کافری نہی تو اور کیا ہے ؟‘‘
بے شک یہ اسم جلالی ہے لیکن قانون قدرت ہے کہ کوئی بھی چیز گرمی کے بغیر نہی پکتی جب کو ئی چیز جلنے کو ہوتی ہے تو اللہ تعالی باران رحمت برسا دیتا ہے جس سے وہ ذیادہ نشوونما پاتی ہے اس جلالی ذکرکی باران رحمت ذکر حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ ہے۔یہ عطائی زکر دو طرح سے ملتا ہے ایک کسی مرشد کامل کی حیات سے دوسرا کسی کامل ذات کی قبر سے جسے سلسلہ اویسیہ کہتے ہیں جیسا کہ حضرت بایذید بسطامی ؒ کو حضرت امام جعفر ؒ سے روحانی فیض حاصل ہوا جبکہ آپ کی پیدائش حضرت امام جعفر ؒ کے فوت ہو جانے کے بعد ہوئی اور حضرت ابوبکر حواریؒ کو جن سے سلسلہ حواریہ چلا ان کو فیض حضر ت ابوبکرؓ سے ہوا جن میں کئی سوسال کا فرق تھا اور حضرت سخی سطان باہو ؒ کو باطن میں حضور علیہ الصلواۃ واسلام نے دست بیعت کیا ، تب تو آپ نے نور الہدی میں لکھا کہ ۔
دست بیعت کردمارامصطفی
ولد خودکواند است مارا مجبتیٰ

ذکوریت 
قرآن و حدیث اور اقوال اولیائے عظام کی روشنی میں :
۱۔زکر کرو اللہ کا کھڑے ،بیٹھے ،اور کروٹوں لیتے بھی (القرآن)
۲۔تم میرا زکر کرو میں تمھارازکر کروں گا (القرآن)
۳۔ہر چیز کے لئیے صیقل ہوتی ہے ۔اور قلب کی صیقل ذکر اللہ ہے(حدیث)
۴۔طالب اللہ کو ذکر اللہ کے سوا اور کوئی چیز سے تشفی نہی ہوتی (حدیث)
۵۔دنیا و مافہا ملعون۔مگر ذکر اللہ (حدیث)
۶۔اگر کوئی مجھے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی دل میں اسے یا دکرتا ہوں۔اگرکوئی مجھے محفل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اُسے فرشتوں کی محفل میں یاد کرتا ہوں(حدیث)
۷۔اگر کوئی شخص تمام عمر نماذ،روزہ،حج،ذکواۃ ادا کرتارہے مگر اسم ذات اللہ اور اسم محمد ﷺ سے بے خبر ہو اس کے مطالعہ میں نہ رہے تو ساری عبادتیں رائیگاں ہیں ( حضرت سخی سلطان باہو ؒ )
۸۔جس شخص کو ذکر اللہ سے غصہ آتا ہے ، وہ دشمن خدا ہے یا منافق ، کافر،یا حاسد متکبر ہو گا ( حضرت سخی سلطان باہو ؒ )
۹۔ذکر قلبی کا ثواب درودشریف کے ثواب سے بھی کئی گنا ذیادہ ہے ( حضرت مجدد الف ثانی ؒ )
۱۰۔عورتیں بھی ذکر جہر کر سکتی ہیں ( حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ )
۱۱۔معلوم ہو تیرا دل اچھائی کی بائیں جانب ہے اس کے دو دروازے ہیں اوپر کا دروازہ زکر جلی سی کھلتا ہے اور نیچے کا ذکر خفی سے ( شاہ ولی اللہ ؒ )
۱۲۔مجدد الف ثانی ؒ سے ایک خادم کا سوال کہ آپ زکر جہر سے منع کیوں فرماتے ہیں
حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا جواب ! میرے مخدوم !
ٓآنحضرت ﷺ کا عمل دو طرح پر ہے ایک عبادت کے طریق پر دوسرا عرف وعادف کے طور پروہ عمل جو عبادت کے طور پر ہے کے خلاف کرنا بدعت منکر ہ جانتاہوں اس کے منع کرنے میں بہت مبالغہ کرتا ہوں کہ یہ دین میں نئی بات ہے اور وہ بات مردود ہے اور دوسرا عمل جو عرف وعارف کے طور پر ہے اس کے خلاف کو بدعت اور منکرہ نہی جانتا اور نہ ہی منع کرنے میں مبالغہ کرتا ہوں کہ وہ دین سے تعلق نہی رکھتا ۔اس کا ہونا یا نہ ہونا عرف و عارف پر مبنی ہے نہ کہ دین و مذہب پر ۔
کیونکہ بعض شہروں میں عرف کا بعض شہروں کے عرف کے خلاف برخلاف ہے اور ایسے ہی ایک شہر میں ذمانوں کے تفاوت کے اعتبار سے عرف میں تفاوت ظاہر ہے ، البتہ عادی سنت کو مدنظر رکھنا بھی بہت سے فائدوں اور سعادتوں کا موجب ہے ۔

مکتوبات مجدد الف ثانیؒ 
صفحہ نمبر ۲۳۱
ذکر جہر
حمایتی ذکر
حضرت ابوہریرہؓ ۔۔۔ذکر بلجہر جائز ہے
حضرت ابن عباسؓ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث مسلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث بخاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نسائی ۔داود شریف ۔۔۔۔۔۔۔۔
ترمزی ابن ماجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
عبداللہ ابن زبیرؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔
امام احمد حنبل ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ؑ غوث اعظم دستگیر ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام بخاری ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ عبدالحق دہلویؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ولی اللہ ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبیر احمد عثمانی ؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام شافعی ؒ ۔جائز ہے جنازہ کے ساتھ بلجہر منع ہے
طریقہ نقشبندیہ میں ذکر جہر منع ہے لیکن کرنے میں کوئی حرج نہی
مولوی اشرف تھانوی ۔آہستہ آواز میں جائز ہے
گنگوہی صاحب۔ جائز ہے لیکن گلاپھاڑنا منع ہے
مخالف ذکر
مولوی سرفراز گھگھڑوی۔ذکر بلجہر حرام ہے
صاحب بزازیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیث عبداللہ ابن ذید ۔ذکر بلجہر بہتر نہی
محمد بن عبدالرحمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سعد ابن وقاص۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Spirituality Introduction of Gohar Shahi Sarkar

                                              حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالی کی باطنی شخصیت کے چند حقائق
انیس 19سال کی عمر میں جسہ توفیق الہی آپ کے ساتھ لگا دیا گیا تھا جویک سال رہااور اس کے اثر سے کپڑے پھاڑ کر صرف ایک دھوتی میں جام داتارؒ کے جنگل میں چلے گئیے ۔جسہ توفیق الہی عارضی طور پر ملا تھا جو کہ 14سال غائب رہا ،اور پھر 1975میں دوبارہ سیون شریف کے جنگل میں لانے کا سبب بھی یہی جسہ توفیق الہی ہی تھا !25سال کی عمر میں جسہ گوہرشاہی کو باطنی لشکر کے سالار کی حیثیت سے نوازہ گیا ،جس کی وجہ سے ابلیسی اور دنیاوی شیطانوں کے شر سے محفوظ رہے ۔جسہ توفیق الہی اور طفل نوری ،ارواح،ملائکہ اور لطائف سے بھی اعلی مخلوقیں ہیں،ان کا تعلق ملائکہ کی طرح براہ راست رب کی ذات سے ہے اور ان کا مقام ، مقام احدیت ہے۔35سال کی عمر میں 15رمضان 1976کو ایک نطفہ ،نور قلب میں داخل کیا گیا،جو کچھ عرصہ بعد تعلیم و تربیت کیلئے کئی مختلف مقامات پر بلایا گیا ۔15رمضان1985میں جبکہ آپ اللہ کے حکم سے دنیاوی ڈیوٹی پر حیدراآباد مامور ہو چکے تھے ۔وہی نطفہ نور طفل نوری کی حیثیت پا کر مکمل طور پر حوالے کر دیا گیا ،جس کے زریعے دربار رسالت ﷺ میں تاج سلطانی پہنایا گیا ۔طفل نوری کو بارہ سال بعد مرتبہ عطا ہوتا ہے لیکن آپکو دنیاوی ڈیوٹی کی وجہ سے یہ مرتبہ 9سال میں ہی عطا ہو گیا ۔

جشن شاہی منانے کی وجوہات : 15رمضان 1977کو اللہ کی طرف سے خاص الہامات کا سلسلہ بھی شروع ہو ا تھا ۔راضیہ مرضیہ کا وعدہ ہوا، مرتبہ بھی ارشاد ہوا تھا ۔چونکہ آپ کے ہر مرتبے اور معراج کا تعلق پندرہ رمضان سے ہے ۔اس لئیے اسی خوشی میں جشن شاہی اسی روز منایا جاتا ہے۔آپ نے 1978میں حیدرآبادآ کر رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری کر دیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیل گیا ۔لاکھوں افراد کے قلوب اللہ اللہ میں لگ گئیے ۔بے شمار افراد کے قلوب پر اسم ذات اللہ نقش ہوا اور ان کو نظر آیا ۔لاتعداد افرا د کشف القبور اور کشف الحضور تک پہنچے۔ان گنت لاعلاج مریض شفا یاب ہوئے۔حضرت سیدنا ریاض احمد گوہرشاہی مدظلہ العالی نے 1980میں باقاعدہ تنظیم کے زریعے پاکستان سے دعوت و تبلیغ کا کام شروع کیا ۔آپ کا پیغام ’’اللہ کی محبت‘‘ کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی ۔ہر مذہب کے افراد آپ سے عقیدت اور محبت کرنے لگے اور اپنی اپنی عبادت گاہوں میں حضرت سیدنا گوہر شاہی کو خطابات کی دعوت دینے لگے ۔اس کی تاریخ میں نظیر نہی ملتی کہ کسی شخصیت کو ہر مذہب والوں نے اپنی عبادت گاہوں کے سٹیج اور منبر پر بٹھا کر عزت دی ہو ۔ہندو،مسلم، سکھ،عیسائی اور ہر مذہب والوں کے دل سیدنا گوہر شاہی کی صحبت سے زکر اللہ سے جاری ہوئے یہ آپ کی ادنی سی کرامت ہے یوں تو آپکی بے شمار کرامتیں ہیں۔ہر ایک کا تزکرہ ناممکن ہے ۔

                                                                                  حضرت سیدنا ریاض احمد گوہرشاہی مدظلہ العالی 
�آپ 25نومبر1945کو برصغیر کے ایک چھوٹے سے گاوں ڈھوک گوھر شاہ ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے ۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدگوہرعلی شاہ کے پوتوں میں سے ہیں۔جبکہ والدگرامی سیدگوہرعلی شاہ کے نواسوں میں سے ہیں،اور داداخاندان مغلیہ سے تعلق رکھتے ہیں
سیدنا گوہر شاہی کے والد گرامی کے تاثرات:
بچپن سے ہی آپکا رخ اولیاء کے درباروں کی طرف تھا ۔آپکے والدگرامی فرماتے ہیں کہ گوہرشاھی پانچ یا چھ سا ل کی عمرسے ہی غائب ہوجایا کرتے اور ہم انکو ڈھونڈنے نکلتے تو ا ن کو نظام الدین اولیاءؒ (دہلی)کے مزار پر یا سرہانے سویا ہوا پاتے ۔مجھے کئی دفعہ ایسا محسوس ہواکہ جیسے یہ نظام الدین اولیاءؒ سے باتیں کر رہے ہیں۔یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب گوہر شاہی کے والد ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم تھے ۔مارچ 97میں جب سیدنا ریاض احمد گوہرشاہی مدظلہ العالی انڈیا تشریف لے گئے تونظام الدین اولیاءؒ دربار کے سجادہ نشین اسلام الدین نظامی نے صاحب مزار کے اشارے پر ان کو دربارکے سرہانے دستارپہنائی تھی۔بچپن سے ہی جو بات کہتے وہ پوری ہوجاتی ۔اس وجہ سے میں انکی ہر جائز ضد پوری کرتا ۔آپ کے والد گرامی مزید فرماتے ہیں کہ گوہر شاہی حسب معمول روزانہ لان میں آتے ہیں تو میں ان کی آمد پراحترام میں کھڑا ہوجاتا ہوں۔اس بات پر گوہرشاہی مجھ سے ناراض ھو جاتے ہیں اورکہتے ہیں میں آپکا بیٹا ہوں،مجھے شرم آتی ہے آپ اس طرح نہ کھڑے ہوا کریں۔لیکن میرا بار بار یہی جواب ہوتا کہ میں آپکے لئیے نہی بلکہ جو اللہ آپ میں بس رہا ہے اس کیاحترام میں کھڑ ا ہوتا ہوں

   گوہرشاہی کی والد ہ ماجد ہ کے تاثرات:

آپ فرماتی ہیں کہ بچپن میں ریاض کبھی سکول نہ جاتا کرتا یا جوانی میں دوران کاروبار کبھی نقصان ہو جاتا تواس سے اظہارخفگی کرتی،لیکن انہوں نے کبھی مجھے سر اٹھا کر جواب نہی دیا ۔جبکہ میرے بزرگ ککہ میاں ڈھوک شمس والے کہا کرتے تھے ’کہ ریاض کو گالی مت دیاکرجو کچھ میں اس میں دیکھتاہوں تمہں خبرنہی ‘۔انسانی ہمدردی اتنی کہ اگر ریاض کو پتہ چل جاتا کہ گاوں سے آٹھ میل کے فاصلے پرکوئی بس خراب ہوہے تو ان لوگوں کے لئیے کھانا بنوا کر سائیکل پر انہیں دینے جاتا

حضرت گوہرشاہی کی زوجہ محترمہ کے تاثرات:
اول تو انکو غصہ آتا ہی نہی ۔اور اگر کبھی غصہ آتا ہے تو انتہائی شدید ہوتاہے وہ بھی کسی غلط بات پر 249حضرت گوہرشاہی کی سخاوت کے بارے کہتی ہیں249صبح جب اپنے کمرے سے لان تک جاتے توجیب بھری ہوئی ہوتی تھی249اور مڑکر آتے ہیں تو جیب خالی ہوتی ہے۔سارا پیسہ ضرورتمندوں کے دے آتے ہیں اور پھر مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی توسنجیدہوجاتے ہیں او راس طرح مجھے غصہ آتاہے۔پھر معصومانہ چہرہ دیکھ کربے ساختہ یہ شعر زبان پر آجاتا
دل کے بڑے سخی ہیں،

بیٹھے ہیں دھن لٹا کے

حضرت گوہرشاہی کے صاحبزادوں کے انکے بارے میں تاثرات:
ابو ہم سے پیار بھی بہت کرتے ہیں اور خیال بھی بہت رکھتے ہیں لیکن جب ہم ان سے پیسے مانگتے ہیں تو وہ بہت کم دیتے ہیں اورکہتے ہیں تم فضول خرچی کرو گے ۔تب ہم کہتے ہیںیا توہمیں بھی فقیر بنا دو یاہمیں پیسے دو۔

حضرت گوہرشاہی کی ممانی کے تاثرات:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا ،ایک دفعہ ممانی (جوکہ ذاہدوپارسااور عبادت گزار تھیں لیکن حرص اور حسد میں بھی مبتلا تھیں جو کہ اکثرعبادت گزاروں میں ہوتا ہے)نے کہا تجھ میں اورتو سب ٹھیک ہے لیکن تو نماز نہی پڑھتامیں نے جواب دیا :کہ نمازرب کا تحفہ ہے میں نہی چاہتا کہ نماز کے ساتھ بخل،تکبر،حسد،کمینہ کی ملاوٹ رب کے پاس بھیجوں جب کبھی بھی نماز پڑھوں گا تو صحیح نماز پڑھوں گا ،تم لوگوں کی طرح نہی کہ نماز بھی پڑھتے ہواور غیبت،چغلی،بہتان جیسے کبیرہ گناہ بھی کرتے ہو،

حضرت گوہرشاہی کے سکول ٹیچر کے تاثرات:
موڑہ نوری پرائمری سکول کے استاد ماسٹر امیر حسین کہتے ہیں،میں علاقے میں بہت سخت گیر استاد مشہور تھا،شرارتی بچوں کو بہت مارتا تھا اور انکی شرارت یہ تھی کہ یہ سکول دیر سے آتے تھے اور جب میں انکو غصے سے مارنے لگتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ کسی نے میرا ڈنڈہ پکڑ ہو اور اس طرح مجھے ہنسی آجاتی تھی۔

حضرت گوہرشاہی کے برادری اور ان کے دوستوں کے تاثرات:
ہم نے کبھی انکو کسی سے لڑتے جھگڑے نہی دیکھا ،بلکہ اگر کوئی دوست غصہ کرتا تھا یا انکو مارنے آتا تو یہ ہنس پڑتے۔

مرشد کریم سیدنا گوہر شاہی کے قریبی دوست محمد اقبال مقیم فضولیاں:
محمد اقبال کہتے ہیں کہ برسات کے موسم میں کبھی کبھی جب کھیتوں کی پگڈنڈی سے گزرنا ہوتا توبے شمار چیونٹے قطاردرقطاراس پگڈنڈی پر چل رہے ہوتے ہم لوگ پگڈنڈی پرچل پڑتے او ر چیونٹیوں کا خیال نہی کرتے لیکن یہ پگڈنڈی سے ہٹ کر کیچڑ پر چلتے تاکہ چیونٹیوں کوتکلیف نہ ہو۔جب ان قتل کا مقدمہ بنا توکرائم برانچ کے قدوس شیخ انکوائیری کے لئیے آئے تومحلے والوں نے انھیں بتایاکہ ہماری نظر میں توگوہرشاہی نے کبھی ایک مچھر نہی مارا کہاں ایک انسان کا قتل۔

گوہرشاہی اپنے بچپن کے حالات بیا ن فرماتے ہیں:
دس بارہ سال کی کی عمر سے ہی خواب میں رب سے باتیں ہوتی تھیں اور بیت المامور نظرآتا تھا،لیکن مجھے اس کی حقیقت کا علم نہی تھا ۔چلہ کشی کے بعد جب و ہی باتیں اور وہی مناظرسامنے آئے تو حقیقت آشکار ہوئی۔
ایک دفعہ کا زکر ہے کہ میرے ماموں کا رشتہ دار جو فوج میں ملازم تھاوہ طوائفوں کے کوٹھوں پرجایا کرتا تھا ،گھروالوں کے منع کرنے کی وجہ سے وہ مجھے ساتھ لے جاتا تاکہ گھر والوں کو شک نہ گزرے۔مجھے چائے اور بسکٹ کھانے کو دیتا اور خود اندر چلا جاتا،جبکہ مجھے طوائفوں اورکوٹھوں کی سمجھ نہی تھی ۔ماموں مجھ سے ہی کہتا کہ عورتوں کا افس ہے۔کچھ عرصے بعدمیرا دل اس جگہ سے اچاٹ ہوگیا۔یہ عورتیں ہیں اور اللہ نے اسی مقصد کے لئیے بنایا ہے۔یعنی اس نے مجھے بھی اس میں ملوث کرنے کی کوشش کی ۔ماموں کی باتوں کا اتنا اثرہواکہ نفس کی کشمکش کی وجہ سے رات بھر نہ سو سکا ،اور پھر اچانک آنکھ لگ گئی۔دیکھتاہوں کہ ایک بڑا گول چبوتراہے اور میں اسکے نیچے کھڑا ہوں،اوپر سے ایک کرخت آواز آئی اسکو لاو،دیکھتاہوں کہ ماموں کو دو آدمی پکڑکر لا رہے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ہے ،پھر آواز آتی ہے کہ اسکو گرزوں سے ماروتب اس کو مارتے ہیں تو وہ چیخیں مارتا ہے،اور دھاڑتا ہے ،اسکی شکل سور جیسی ہو جاتی ہے،پھر آواز آتی ہے کہ تو بھی اگر اسکے ساتھ شامل ہو اتو تیرا بھی یہی حال ہو گا ۔پھر میں توبہ توبہ کرتا ہوں اور آنکھ کھلتی ہے تو ذبان پر یہی ہوتا ہے
کہ یارب میری توبہ ،یارب میری توبہ اور کئی سال تک اس خواب کا اثر رہا
اس کے دوسرے دن میں گاوں کی طرف جا رہا تھا بس میں سوار تھاکچھ ڈاکوایک ٹیکسی سے ٹیپ اتارنے کی کوشش کر رہے تھے ،ڈرائیور نے مزاحمت کی تو اس پر چھریوں سے وار کر کے قتل کر دیا ۔یہ منظر دیکھ کر ہماری بس رک گئی اور وہ ڈاکو ہمیں دیکھ کر فرار ہو گئیے ۔اور ڈرائیور نے تڑپ تڑپ کر ہمارے سامنے جان دے دی ۔پھر ذہن میں یہی آیا کہ ذندگی کا کیا بھروسہ رات کو سونے لگا تو اندر یہ شعر گونجنا شروع ہو گئیے
کرساری خطائیں معاف میری،تیرے در پرآن گرا
اور ساری رات گریہ زاری میں گزاری ،اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد میں دنیا چھوڑ کرجا م داتارؒ کے دربار پر چلا آیا لیکن وہاں سے بھی کوئی منزل نہ ملی،اور میرا بہنوئی مجھے وہاں سے واپس دنیا میں لے آیا،34 سال کی عمر میں بری امام ؒ سامنے آئے اور کہا اب تیرا وقت ہے دوبارہ جنگل میں چلہ کشی کے بعدکچھ حاصل ہو ا تو دوبارہ جام داتا رؒ گیا،صاحب مزار سامنے آگئیے میں نے کہا اس وقت مجھے قبول کر لیا جاتا توبیچ میں نفسا نی ذندگی سے محفوظ رہتاانھوں نے جواب دیا :اس وقت تمھارا وقت نہی آیا تھا ۔۔۔

شیخ نظام الدین میری لینڈ امریکہ کے تاثرات :
جس طرح ہرمذہب ،ہر قوم ،ہرنسل کے افراد گوہر شاہی سے رشدوہدایت حاصل کر کے اللہ کی محبت اور ذات تک پہنچنا شروع ہو گئیے ۔خدا کی قسم !میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں جن کو دلوں پر خوشخط لکھا اللہ چمک رہا ہے۔
حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالی نے تین سال سیون شریف کی پہاڑیوں اور لال باغ میں اللہ کے عشق کی خاطر چلہ کشی کری،اللہ کو پانے کی خاطردنیاداری چھوڑی،پھر اللہ کے حکم ہی سے دوبارہ دنیامیںآئے۔لاکھوں دلوں میں اللہ کا زکر بسایا اور لوگوں کی اللہ محبت کی طرف راغب کیا ،ہر مذہب والوں نے گوہرشاہی کو مسجدوں ،مندروں، گردواروں،اور گرجا گھروں میں روحانی خطاب کے لئیے مدعو کیا،اورزکرقلب حاصل کیا،بے شمار مردوذن انکی تعلیم سے گناہوں تائب ہویئے اور اللہ کی طرف جھک گئیے ،بے شمار لاعلاج مریض انکے روحانی علاج سے شفایاب ہوے،پھر اللہ نے انکا چہرہ چاند میں دکھایا،پھر حجراسودمیں بھی انکی تصویر ظاہر ہوئی،پوری دنیا میں کی شہرت ہوگئی۔لیکن کورچشم مولویوں کو اور ولیوں سے بغض رکھنے والوں مسلمانوں کو انکی شخصیت پسند نہ آئی،انکی کتابوں کی تحریریوں میں خیانت کر کے ان پر کفر اور واجب القتل کے فتوئے لگائے ۔
مانچسٹر میں انکی رہائش گاہ پر پیٹرول پھینکا،کوٹری میں دوران محفل ان پر ہینڈ گرینیڈ بم سے حملہ کیا گیا ۔لاکھوں روپے ان کے سر کی قیمت رکھی گئی ۔پانچ قسم کے سنگین مقدمات ،اندروں ملک انکو پھنسانے کے لئیے قائم کئیے گئیے ۔نواز شریف کی وجہ سے سند ہ حکومت بھی مخالفت میں شامل ہو گئی تھی ۔دو کیس قتل ،ناجائز اسلحہ،ناجائز قبصہ کی دفعات بھی لگائی گیں ۔امریکہ میں بھی ایک عورت سے ذیادتی اورحبس بے جا کا مقدمہ بنایا گیا
زرد صحافت نے انہیں ذمانے میں خوب بدنام کرنا چاہا،لیکن آخر میں عدالتوں شنوائی اور تحقیقات کے بعدیہ مقدمات جھوٹے قرار دے کر کلئیرکر دئیے اور اللہ نے اپنے دوست کو ہر مصیبت سے بچائے رکھا

International Spiritual Movement Anjuman Serfaroshan-e-Islam

International Spiritual Movement Anjuman Serfroshan-e-Islam (ASI) (Urdu: عالمی روحانی تحریک انجمن سرفروشان ِ اسلام‎) is a Pakistan-based organisation. It was made in 1980 by Riaz Ahmed Gohar Shahi. Its headquarters are in Kotri, Hyderabad, Sindh and Pakistan.

Purpose
The purpose of this movement is to invite all man without any discrimination of caste, creed, nation or religion towards the divine love of God.

Method
To serve this purpose, Riaz Ahmed Gohar Shahi visited places of worship of different types, including Mosques, Imam Bargahs, churches, Hindu temples, Sikh temples etc.

Organizational Structure
International Spiritual Movement Anjuman Serfroshan-e-Islam is divided into two branches one for men only and other is for women only. The president of men wing was (Late) Mr. Wasi Muhammad Qureshi, who was nominated by Riaz Ahmed Gohar Shahi as President of International Spiritual Movement Anjuman Serfroshan-e-Islam. Gohar Shahi himself is the Patrorn-in-Chief of International Spiritual Movement Anjuman Serfroshan-e-Islam.

Founding Members
In 1980, when Shahi formed the movement it had only five members, who are called founding members. Following are the names of the founding members of International Spiritual Movement Anjuman Serfaroshan-e-Islam:

Muhammad Arif Memon (Late)
Wasi Muhammad Qureshi (Late)
Dr. Abdul Qayoom Shaikh(Late)
Muhammad Anwar Qadri
Maulana Saeed Ahmed Qadri

About Sarkar in URDU

Life and Background of Hazrat Riaz Ahmed Gohar Shahi r.a.

Dua After Mehfil Zikar

محفل ذکر کے بعد کی دعا

Tareeka E Zikar

ذکر کی محفل

Latest article

Sachon Ka Naam – Momineen

0